مسٹر بابر اعوان کے ماضی کے کردار سے کو نسا پیپلز پارٹی کا رکن اور وکیل ہے جو واقف نہیں ہے؟موصوف جذبات کی حد تک بھٹو کے تختہِ دار پر لٹکائے جانے کے حامی تھے۔اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو ان کے ماضی کے ساتھیوں سے اس بات کی تصدیق آسانی کے ساتھ کرائی جا سکتی ہے۔چالاکی اور عیاری میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ حسین حقانی کا دوسرا روپ ہیں ۔جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو موصوف نے ٹوکرے بھر بھر کر مٹھائیاں تقسیم کیں۔شائد ان کا تصور صحیح یا غلط یہ تھا کہ پاکستان کو دولخت کرنے والے تین کرداروں میں اندرا گاندھی اور مجیب الرحمان کے بعد تیسرا نام ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔بابر ایوان جنرل ضیاء الحق کے بہت بڑے پرستار اور حامی رہے ہیں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے اتُنے ہی بڑے مخالف اور دشمن تھے ۔آج اُّسی ضیاء الحق کو یہ منہ بھر بھر کر گالیاں دینے سے بھی نہیں جھجکتے ہیں اور بھٹوز کے بہت بڑے حامی اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی کوششوں میں زمین آسمان ایک کئے ہوے ہیں۔ان کی ذہنیت ان کے وکیل ہونے میں مضمر ہے!!!موجودہ صدر زرداری جیسے لوگوں کو مقدمات کے نام پر جی بھر کر ٹھگا گیا ہے۔پیپلز پارٹی کے تمام سینئر لوگ بابر اعوان کی شخصیت سے بڑی اچھی طرح سے واقف ہیں۔اس وقت ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہیں ہے!!! مگر خدا بھلا کرے بی بی کی موٹ کا کہ وہ تمام لوگ جو پیپلز ُپارٹی کے ماضی کے مخالفیں تھے ۔آج پارٹی میں گھُس کر اسکے سب سے بڑے حامی اپنے آپ کو پوز کر رہے ہیں۔یہ لوگ پیپلز پارٹی کی تباہی کے پورے پورے سامان پیدا کرنے میں کوئی لمحہ بھی ضائع کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ان لوگوں نے معزز عدلیہ کے حکومت کو احکامات نہ ماننے کا درس دے دے کر پیپلز پارٹی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا انتہائی مخلص کار کن انتہائی کرب کا شکار ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والے پارٹی کے جیالوں کو بتائیںکہ وہ کس قیمت پر خاموشی سے اپنا کام کر رہے ہیںاور ان کی پارٹی کی تباہی کے سامان میں مصروف ہیں؟؟؟یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ آج وہ ہی ماضی کے لوگ پیپلز پارٹی کے اقتدار میںآتے ہی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کیونکر بن گئے ہیں؟؟؟شائد یہ ذرداری اورحکومت کی جانب سے بھاری فیسوں کے ساتھ دیئے گئے مقدمات کا کمال ہے!!! کمائو پوت ایسے ہی تو ہوتے ہیں!!! بابر اعوان کا یہ بیان بھی ہمیں تعجب میں مبتلا کر گیا کہ پنجاب سے تیں وزرائے اعظم کی لاشیںسندھ بھجوائی گئیںاوراب چوتھے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی سازش کی جا رہی ہے۔تینوں وزرائے اعظم کے خلاف سازشیں بھی تو آپ جیسے لوگ ہی کرتے رہے تھے اور اقتدار کے ایوانوں میں کے تابوت میں بھی آپ ہی آخری کیل ٹھوکنے کے درپے ہیں؟بابر اعوان وکیل ہونے کے باوجود آئین کی اُلٹی تشریح اپنے مخصوص مقاصد کے تحت کرتے رہتے ہیں۔قانون کا طالبعلم توان کی وجہ سے اُلٹی شاستر پڑھے گانا….تمام ماہرینِ قانون ان کے اس بیان پر محوِ حیرت ہیں کہ کمیشن تشکیل دینے کا ختیارعدلیہ کو ہے نہیں!!!انہیں نہ جانے کیوں اس بات کا علم نہیں ہے کہ آئین کے آرٹیکل 187 اور190کے تحت عدالتِ عظمیٰ ایسے کسی بھی کمیشن کی تشکیل کا مکمل اخٹیار رکھتی ہے۔ہمیں معلوم نہیں کہ یہ بات ان کے علم میں ہے یا نہیں کہ اس سے قبل بھی کئی حساس معاملات پر عدلیہ نے کمیشن تشکیل دیئے ہیں۔ ان پر آپ کو کبھی اعتراض نہ ہوا جن میں سب سے زیادہ مشہور حمود الرحمان کمیشن کا تو آپ نے نام سنا ہی ہوگا؟؟ لگتا یوں ہے کہ موصوف شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں دیوانے ہوے جا رہے ہیں۔بڑی عجیب بات یہ ہے کہ جو جمہوریت کو تباہ کر رہے ہیں وہ ہی پیپلز پارٹی کے فرینڈلی مخالفین پر جمہوریت کو نقصان پہنچانیکا الزام بھی لگاتے نہیں تھک رہے ہیں۔آپ کہتے ہیں کہ عدالتوں میں تمام لوگوں کے کیس کھلنے چاہئیں خوش آمدید کھولئے تاکہ سب کی کرپشن پاکستان کے عوام کے سامنے آجائے۔مگر آپ حکومت میں ہوتے ہوے ایسا کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیںیہ بات سمجھ سے بالا تر ہے؟؟آپ کی اس منطق پر تمام پاکستانی حیرت کاشکار ہیں۔حکومت ان تمام لوگوں کو بے نقاب کرے جو پاکستان کی دولت کے لُٹیرے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کی جمہوری صدر کو غدار کہا گیایہ کام عدالت کا ہے کہ کون وطن سے غداری کر رہا ہے اور کون محبِ وطن ہے؟؟؟ اگر جرم ثابت ہوجائے تو ہر غدار کو غدار ہی کہا جائے گا ۔وقت سے پہلے ہی اگر کسی کے پیٹ میں مروڑ ہوتی ہے تویہ بات سوالیہ نشان پیدا کرتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو بچانے کیلئے کوئی اصل جیالہ سامنے کیوںنہیں آرہاہے اور کیاپیپلز پارٹی کے ترجمان کو بھی سانپ سونگ گیا ہے؟جو بابر اعوان جیسے لوگ بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں۔ اس وقت لوگوں کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت بھی توہین عدالت کے کھیل میں برابر کی شریک دکھائی دیتی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر یہ کہا جا رہا ہے کہ ”سپُریم کورٹ نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو انصاف سے محروم رکھا ہے”وفاقی حکومت سپُریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بار بار سندھ کارڈ کی بات کرتی ہے جبکہ سیانے کہتے ہیں کہ سندھ کارڈ جیسے احمقانہ حربوں میں آج کوئی جان نہیں ہے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف میمو گیٹ اسکینڈل کو لے کر سُپریم کورٹ چلے گئے تو حکومتی ایوانوں میں زلزلہ سا آگیا۔بابر اعوان نے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر عدالتِ عالیہ پر دشنام طرازی کرتے ہوے اول فول بکنا شروع کر دیا۔ماہرین قانون کا یہ کہنا ہے کہ بابر اعوان کی پریس کانفرنس واضح طور پر توہینِ عدالت ہے۔جبکہ ان کے بیشتر بیانات غلط بنیاد اور آئین کے ضمن میں گمراہ کن ہیں۔جب بھی کرپشن کا اشو سامنے آتا ہے بابر اعوان کو جمہوریت کے لئے خطے کی بو آنے لگتی ہے۔ان کا یہ سخت ترین رویہ عدالت عظمیٰ کے ضمن میں دوسری مرتبہ قوم نے ملاحظہ کیا ہے۔ بابر اعوان جو بذاتِ خود ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی یکجہتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ نون اشوز کو اشو بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔شائد اس کی وجہ سپریم کورٹ کا فوری فیصلہ ہے۔جس کے تحت میمو کاجرام ثابت ہونے پر آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔کیونکہ باس سے مراد منصور اعجاز کے اسرار کے مطابق صدر زرداری کا ہی حوالہ تھا۔ حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر وزیر اعظم گیلانی کو کہنا پڑا اس ضمن میں کہنا پڑاکہ میمو اسکینڈل پر صدر کو بلاوجہ ٹاگیٹ کیا جا رہا ہے اگرکسی قربانی کی ضرورت پڑی تو میں خود دونگا!!!یہ ہوئی نہ اپنے بواس سے وفاداری ! دوسری جانب نواز شریف کا کہنا ہے کہ میں نے کسی پر الزام نہیں لگایا ہے۔حکومت امریکہ سے خفیہ معاہدے ختم کر لے تو ہم اس کی مدد کے لئے تیار ہیں۔تاہم لوگوں کا یہ یقین ہے کہ حکومت پارلیمانی کمیٹیاں بنا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لمبی تان کر اپنے فیصلوں پر عمل نہ کرنے کی ٹھا ن کر سوجاتی ہے ۔ حکومت پارلیمانی کمیٹیوں کی سفارشات کو مسلسل ردی کی ٹوکری میں ڈالتی رہی ہے ۔جن میں قومی سلامتی کی کمیٹی،تعلیم کی قائمہ کمیٹی،ریلوے کی قائمہ کیٹی اور پی اے سی کی سفاشات کسی پر بھی عمل نہیں کیا گیاجس کے لئے بابر اعوان زور لگا لگا کر کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو کمیٹی کی تشکیل کا اختیار نہیں ہے ان کا یہ کہنا کہ اس میمو اسکینڈل کے لئے پارلیمانی کمیٹی کافی ہوگی اور کسی کمیٹی کے بنانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ان کا یہ بیان سوائے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے کچھ نہیں ہے۔لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بابر اعوان اس قدر بوکھلا ہٹ کا شکار کیوں ہیں۔نوازشریف بھی یہ کہتے ہوے سنے گئے ہیں کہ اگر پالیمانی کمیٹیون کے فیصلوں پر عمل درآمد ہوتے تو ہمیں عدالت میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت خود اپنے پیروں پر کلہاڑے چلا رہی ہے ۔جس کی وجہ سے اس کا سفر بند گلی کی طرف تیزی سے جاری ہے۔بابر اعوان بتائیں کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کی یہ کس قسم کی خدمت کر رہے ہیں کہ اسکا گراف روز بروز گرتا ہی چلا جا رہا ہے۔جیالوں کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کو نکال باہر کریں جو کل بھی اس پارٹی کے مخالف تھے اور آج بھی اسکی تباہی کے بھر پور سامان کرنے میں بڑے معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشیدshabbir4khurshid@gmail.com