فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانسیسی مسلح افواج کے بیس سابق جرنیل ملک میں سیاسی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ انہوں نے فرانس کو اسلام پسندوں کی وجہ سے لاحق بڑھتے ہوئے خطرات کے باعث فوج سے اقتدار پر قبضے کی اپیل بھی کر دی تھی۔
ان ریٹائرڈ فرانسیسی جرنیلوں نے اپنی اپیل میں جو موقف اختیار کیا تھا، اس کے مطابق ‘فرانس اس وقت خطرے میں ہے‘۔ ملکی مسلح افواج کے یہ پینشن یافتہ اعلیٰ ترین افسران چاہتے تھے کہ فرنچ آرمڈ فورسز اس لیے اقتدار پر قبضہ کر لیں کہ ملک کو لاحق ‘اسلام پسندوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے خطرات‘ اور ملک کے ‘بڑے شہروں کے چھوٹے چھوٹے مضافاتی شہروں سے بار بار پرتشدد مظاہروں کے لیے نکلنے والے ہجوموں‘ دونوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
اس پیش رفت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے لیے کسی بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں۔
ان بیس ریٹائرڈ فرانسیسی جرنیلوں نے ایک کھلا خط لکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ فرانسیسی جمہوریہ خطرے میں ہے۔ ان کے اس خط کے بارے میں شروع میں تو ملکی حکومت نے کسی تشویش کا اظہار نا کیا اور ملک کی خاتون وزیر دفاع پارلی نے بھی کہا کہ یہ خط ‘اسّی اسّی سال کے افراد کے عجیب و غریب خوابوں کی عکاسی‘ کرتا ہے، جو گاؤن اور چپلیں پہنے گھروں میں بیٹھے اپنا وقت گزارتے ہیں۔
پھر اسی ہفتے گزشتہ چند دنوں کے دوران فرانس میں یہ بحث زور پکڑ گئی کہ ان سابقہ جرنیلوں نے جو کچھ کہا ہے، وہ سیاسی آتش زنی کے لیے استعمال ہو سکنے والے کسی فائر بم سے کم نہیں۔
فرانس میں اس واقعے کو اس طرح بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اگلے سال کے اوائل میں ملک میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر یہ دراصل انتہائی دائیں بازو کے سیاسی حلقوں کی طرف سے ان کی انتخابی مہم کا آغاز ہے۔ مگر بات ایسی ہے کہ کسی بھی مغربی جمہوری معاشرے، خاص طور پر فرانس جیسے ملک میں، اس کو سرے سے نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کھلا خط فرانس میں انتہائی دائیں بازو کے ایک جریدے Valeurs Actuelles میں شائع ہوا اور اس کی لفاظی ایسی ہے کہ اسے صرف بغاوت پر اکسانے کے لیے استعمال کیے جانے والے الفاظ ہی کا نام دیا جا سکتا ہے۔
اس خط میں جو کئی بہت عجیب اور سیاسی طور پر پہلے نا سنی گئی باتیں کہی گئی تھیں، ان میں ایسے جملے یا الفاظ بھی شامل تھے: ”موجودہ وقت بہت مشکل ہے، فرانس کو خطرہ ہے۔‘‘
اس کے علاوہ اسی خط میں لکھا گیا کہ ‘نسل پرستی کے خلاف‘ ایک مخصوص طرز فکر شہروں اور بلدیاتی علاقوں میں نفرت کے بیج بو رہا ہے۔ اور پھر ‘نوآبادیاتی نظام کے خلاف نظریوں سے ہمارے ملک، اس کی روایت اور ثقافت کی تذلیل‘ کی گئی ہے اور یہ بات فرانس کے ماضی اور اس کی تاریخ کو تباہ کر رہی ہے۔
ساتھ ہی اس خط میں مزید لکھا گیا کہ ‘اسلام پسندی‘ اور زیادہ تر تارکین وطن کی آبادی والے ‘چھوٹے شہروں سے نکلنے والے ہجوم‘ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کا نتیجہ ملک کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔ ان ڈیڑھ درجن سے زائد فرنچ جرنیلوں نے اپنے اس مشترکہ کھلے خط میں یہ بھی لکھا کہ فرانس کے بڑے شہروں کے چھوٹے چھوٹے مضافاتی قصبوں اور شہروں میں پہلے ہی لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور وہاں خطرات اور تشدد کا استعمال روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔
یہ خط جسے فوج کو بغاوت کی دعوت دینے کے علاوہ سیاسی طور پر کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا، بیس ایسے ریٹائرڈ جرنیلوں نے لکھا، جن میں مثال کے طور پر کرستیان پیکمال بھی شامل ہیں۔ پیکمال کو 2016ء میں انتہائی دائیں باز کی سوچ کی مظہر مصروفیات کی وجہ سے فرانسیسی فوج سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
دیگر سابق جنرل انتہائی دائیں بازو کی ایک سیاسی جماعت آر این کے سرگرم رکن ہیں۔ اس جماعت کی سربراہ فرانس کی انتہائی دائیں باز وکی مشہور لیکن کافی متنازعہ خاتون سیاستدان مارین لے پین ہیں۔ ان میں سے ایک فرانسوا فوبیئر وہ ہیں، جو شہر موں پیلیئے کی بلدیاتی کونسل کے رکن بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور سابق جنرل ایمانوئل رِشوفٹس ہیں، جو 2019ء کے بلدیاتی الیکشن میں امیدوار بھی تھے۔
مجموعی طور پر اس کھلے خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق جرنیل تو بیس تھے مگر دستخط کنندگان کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں تھی، جو سب کے سب فرانسیسی فوج کے ریٹائرڈ افسران ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں فرانسیسی فوج کے 18 ایسے حاضر سروس فوجی بھی شامل ہیں، جنہیں ان کی طرف سے فوجی ضابطہ اخلاق کی شدید خلاف ورزی کی وجہ سے اب جبری پینشن پر بھیج دیا جائے گا۔
اس بارے میں فرانسیسی فوج کے کمانڈر ان چیف فرانسوا لکوائنتر کے مطابق ایسے تمام سابق فوجیوں اور افسران کو بوقت ضرورت استعمال میں لائے جانے والے ریٹائرڈ لیکن ریزرو فوجیوں کی فہرست سے ہمیشہ کے لیے خارج کر دیا جائے گا جبکہ اس خط پر دستخط کرنے والے جاضر سروس فوجیوں کو تو سرے سے برطرف ہی کر دیا جائے گا۔
نئے قانون کے مطابق ایسے مشتبہ افراد، جن پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا شبہ ہو گا، وہ اس شہر سے باہر نہیں جا سکیں گے، جہاں ان کی رجسٹریشن ہوئی ہو گی۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ تھانے میں پیش بھی ہونا پڑے گا۔ ایسے افراد کے کچھ مخصوص مقامات پر جانے پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ یہ اقدامات صرف انسداد دہشت گردی کے لیے ہوں گے۔
اس خط کے بارے میں جرمن فرنچ انسٹیٹیوٹ کے سیاسی امور کے ماہر فرانک باسنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ ساری کارستانی محض انتخابی سیاسی مہم ہے، اور کچھ بھی نہیں۔‘‘ انہوں نے اس حوالے سے بڑی حیرانی کا اظہار کیا کہ فرانسیسی مسلح افواج میں انتہائی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے اتنے زیادہ سابقہ افسران کا مشترکہ موقف فرانس کے اعلانیہ طور پر انتہائی دائیں بازو کے ایک جریدے میں شائع ہوا ہے۔
فرانک باسنر کے مطابق جرمنی اور فرانس دونوں ممالک میں مسلح افواج کے ارکان کی ایک چھوٹی سی تعداد ہمیشہ ایسی ہوتی ہی ہے، جو یہ چاہتی ہے کہ ریاست کو زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے۔ باسنر نے مزید کہا کہ فرانس میں بڑھتی ہوئی اسلام پسندی اور مسلمان شدت پسندوں کی طرف سے بار بار کیے جانے والے خونریز حملوں کی وجہ سے ملک میں یہ معاملہ ایک بڑا سیاسی موضوع بن گیا ہے، جس کا تعلق ملکی اور سماجی سلامتی سے ہے اور جس کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذباتیت بھی دیکھنے میں آتی ہے۔