بیوٹی آف کشمیر۔۔۔ مکتوب یورپ

kashmir

kashmir

برسلز: کشمیرکونسل ای یو نے یورپی پارلیمنٹ کے رکن سجادکریم کے تعاون سے برسلزکی یورپی پارلیمنٹ میں ایک چارروزہ نمائش کا انعقاد کیا۔یہ نمائش دس اکتوبر سے شروع ہوئی اور چودہ اکتوبر تک جاری رہی۔ نمائش کا آغازایک سیمینار سے ہوا۔ نمائش میں کشمیرکے حوالے سے تصاویر، دستکاری کے نمونے اورکتب رکھی گئی تھیں۔ محفوظ ماضی اور مجروح حال کے موضوع کو اجاگرکرتے ہوئے ، نمائش کے ذریعے کشمیرکی ثقافتی شناخت اورساتھ ساتھ مقبوضہ وادی میں قابض فوج کے نرغے میں انسانی زندگی کی موجودہ صورتحال کونمایاں طورپر پیش کیاگیا۔ اس پروگرام کے ذریعے کشمیرپر ماہرانہ اندازمیں ایک مثالی وکالت کی گئی ۔جس طرح کہ یورپی اداروں میں اس بات کا مشاہدہ کیاگیا، اسی طرح پروگرام کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ترتیب دیاگیا۔ مطلوبہ مقاصد کو پورا کرتے ہوئے اس پروگرام نے بہت سی یورپی یونین اوربلجیم کی پارلیمنٹ کی اہم شخصیات کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کروایاہے حتی کہ بہت سے اراکین پارلیمنٹ نے اس نمائش کا دورہ کیا اورکشمیرکونسل ای یو سے وابستہ پروگرام کے منتظمین کی موقف کا ہمہ تن گوش کیا۔ نمائش میں ایشیاکے سوئٹرزلینڈیعنی کشمیرکی دلکش خوبصورتی، ثقافتی اقدار اور سیاسی مشکلات کو پیش کیاگیا۔یہاں یہ کہنادرست ہوگا کہ نمائش کے ذریعے اس حقیقت کو اجاگرکیا گیاکہ کشمیری قوم بندوق کے سایے تلے سخت مشکلات سے گزررہی ہے۔کشمیریوںکے ان بنیادی حقوق اورآزادی سے انکارکیاجارہاہے جو آج انسانی زندگی کا بین الاقوامی، اخلاقی اورمعاشرتی معیارہے۔اس پروگرام کا افتتاح شریک منتظم اور رکن ای یو پارلیمنٹ سجادکریم نے کیا۔ انھوں نے کہاکہ اس پروگرام کامقصد سیاسی مباحثے کے تناظرمیں انسانی ضمیرپرلگنے والے گہرے زخم سے پردہ اٹھاناہے۔
کشمیرپر منعقد ہونے والے اس پروگرام میں شریک ہونے والے لوگوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے سجادکریم نے کہاکہ تصورآزادی اور انسانی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی اداروں کے مختلف معاہدوں ، پروٹوکولزاورمنشورکے تحت امن سے محبت رکھنے والے ہرانسان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیر میں انصاف کے قیام کی حمایت کرے۔کشمیر کونسل ای یوکے چیئرمین علی رضاسید نے مسئلہ کشمیرکے منصفانہ حل کی ضرورت پر زوردیااور اس تنازعے کو انسانیت کو درپیش ایک اہم مسئلہ قرار دیا ۔ انھوں نے کشمیرکی خوبصورتی خاص طورپر اس کے قدرتی حسن کا حوالہ بھی دیااور کہاکہ اس دیدہ زیب سرزمین میں قدرت کے تحائف لذیذپھلوں ، فصلوں ، معدنیات اور دوسرے قدرتی وسائل کی صورت میں موجود ہیں۔
انھوں نے کشمیری قوم کے انسانی ذرائع کے بارے میں اعدادو شماربھی پیش کئے ، خاص طورپر انھوں نے کشمیرکی ہاتھ بنی ہوئی اشیاکے بارے میں اہم معلومات پیش کیں۔ انھوں نے بتایا کہ خواتین کے ہاتھ سے بنی ہوئی نفیس کشمیری شال کئی صدیوں سے پورے خطے میں شہرت رکھتی ہے۔ انھوں نے کشمیرکے طویل دریاوں اور جھیلوں ، بلند و بالاپہاڑوں اور خوبصورت وادیوں کے بارے میں شرکاکومعلومات فراہم کیں۔کشمیرکے عظیم ثقافتی تنوع کے بارے میں علی رضا سید بتایاکہ کشمیرکا دارالحکومت سری نگر250سال قبل مسیحی اشوکا ماوریہ  نے قائم کیا تھا اور یہ سکندراعظم کی خطے میں حکمرانی کا زمانہ ہے جسے گندھارا تہذیب  بھی کہاجاسکتاہے۔ انھوں نے کہاکہ آج کے ہندوستانی۔یونانی تمدن کویونان ۔ٹوگا میں بدھ مت کے عظیم پیشوانے پیش کیاتھاجو اس بات کو ثابت کرتاہے کہ مسلمان صوفیوںکے پیغام امن وسلامتی کے پہنچنے سے قبل کشمیر صدیوں تک بدھ مت کا مرکز رہاہے۔
علی رضاسید نے بتایاکہ اسلام کی روشنی کی کرن بدھ مت کے بادشاہ راماچاندن  کے قلب پر پڑی اوراس نے اسلام قبول کیا۔بادشاہ نے ثقافتی تغییروتبدل کا عظیم اقدام کیاجبکہ اس نے صدیوں پرانی ثقافتی روایات کو بھی محفوظ رکھااور مساوی احترام اورنسلی اورفرقے اورعقیدے سے بالاتررویوں کو فروغ دیا۔ انھوں نے اس حقیقت پر بھی افسوس ظاہرکیاکہ اسی خوبصورت سرزمین پر آج خون بہہ رہاہے ۔
بچے ، خواتین اور مرد ہرطبقے اورہرعمر کے لوگ خوف کی فضا میں زندگی بسرکررہے ہیں۔ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسرکررہے ہیں جہاں انھیں ان کے بنیادی حقوق اورآزادی سے محروم کردیاگیاہے۔وہ بندوق کے سائے میں اورفوجیوں کے بوٹوں کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے ذلت آمیزاورمظلومانہ زندگی بسرکرنے پر مجبورہیں۔انھوں نے کہاکہ کشمیرمیں سب سے ارزاں چیز اس سرزمین کے شہریوں کی زندگی ہے۔ کشمیرکونسل ای یو کے سربراہ نے ہرذی شعور انسان اورامن سے محبت کرنے والے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کونسل کی طرف سے جاری ایک ملین دستخطی مہم پر دستخط کرکے کشمیرکاز کی حمایت کریں ۔گمنام قبرو ں کے مسئلے کو اٹھاتے ہوئے کہاکہ ای یو کمیٹی نے درجنوں ایسی قبروں کا انکشاف کیاہے جن میںہزاروں کشمیریوں کو قتل کرنے کے بعد دفن کیاگیاہے۔ ان قبروں میں دفن زیادہ تر کے اجسام پر تشددکے نشانات دکھائی دیئے اوران میں سے بہت سی لاشوں کی انگلیاں نہیں تھیں جن کے نام ابھی تک معلوم نہیں ہوسکے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہارکیا کہ وہ ناانصافی اورکشمیرپر غیرقانونی قبضے کے خلاف اس وقت تک جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک کشمیریوں کو ان کے جائز حقوق اور حق خودارادیت نہیں مل جاتا۔برطانوی حکومت کی ماحول کے بارے میں پالیسی ایڈوائزر سعدیہ میر نے کہاکہ ماحول کا مسئلہ انسانیت کا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس مسئلے پر دنیاکے تمام کارکنوں اورپالیسی بنانے والوں کی اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے۔انھوںنے حکومتی تسلط، عدم تحفظ اور غیرمتعلقہ افواج کے ذریعے زمین کے ایک اہم حصے اور اس کی خوبصورتی کو تباہ کرنے کے بارے میں اہم اعدادو شمارکے ساتھ اپنی ماہرانہ رائے پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے عارضی کوششوں اور تاخیر حربے اس سرزمین کی ناقابل تلافی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔انھوں نے اس حقیقت پر زوردیا کہ مسئلہ کشمیرایک خاص طبقے یا حکومت سے متعلق نہیں بلکہ کرہ زمین پر موجودانسانیت کو درپیش مرکزی مسائل میں سے ایک ہے۔سعدیہ میرکے خیالات کی انسانی حقو ق کی علمبردارخاتون ماریان لوکس نے بھی تائید کی۔انھوں نے کہا کہ اس وقت پورا جنوبی ایشیااس ایک مسئلے کی وجہ سے مشکلات کا شکارہے جو علاقے میں جوہری پھیلا کی وجہ بھی ہے۔
مسئلے کاحل اس علاقے میںجہاں لوگ غربت، ناانصافی اور عدم مساوات کا شکارہیں، عظیم اقتصادی اورسماجی ترقی کی راہیں کھول سکتاہے۔ان کے خیالات کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے رکن بلجیم پارلیمنٹ ، ڈینیل کارون نے کہاکہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیرکا پرامن اور منصفانہ حل ضروری ہے۔
ای یو پارلیمنٹ کے اراکین کی بڑی تعدادنے نمائش کا دورہ کیاجن میں ایوو واجگال، ریچارڈ اشورتھ، لاجوس بوکروس، تموتھی کرتھوپ، سسیلیا ورکستورم، گوفری وان آردن، مارٹین کالاران اور اشلے فوکس قابل ذکرہیں۔ انھوں نے کشمیری عوام کے مصائب پر اپنے احساسات اور تاثرات بیان کئے ۔ ان میں سے بہت سے افراد نے ایک ملین دستخطی مہم کی دستاویزات پر دستخط کئے۔ یہ دستخطی مہم انسانی حقوق کے کارکنوں اورامن کے لیے کوشاں تنظیموں کی حمایت سے کشمیری کمیونٹی کاسب سے اہم اقدام تصورکیاجارہاہے۔ اراکین پارلیمنٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے علی رضاسیدنے کہاکہ دستخطی مہم مختلف ممالک کے انسانی حقوق کے کارکنوں خصوصا  جنوبی ایشیائی لوگوںکا مشترکہ اقدام ہے۔یورپ کے شہریوں سے ایک ملین دستخط جمع کرکے وہ یہ بات بتاناچاہتے ہیں کہ امن پسند اقوام اور افراد کی اکثریت مسئلہ کشمیرکا مذاکرات کے ذریعے اور پرامن اورجمہوری طریقے سے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل چاہتے ہیں۔نمائش میں پیش کئی گئی ایک تصویرکے عنوان کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہاکہ کشمیردنیا کا ایسا خطہ ہے کہ جس پر اللہ تعالی کی خاص عنایت ہے لیکن بھارتی فوجیوں نے اسے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ زاہد مصطفی اعوان