اسلام آباد پانچ سال گزرنے کے بعد بھی سابق وزیر اعظم اور صدر آصف علی زرداری کی اہلیہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہے اور اب تک اس حملے میں ملوث کسی شخص کو سزا نہیں دی گئی جو کہ ناقدین کے بقول حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی اپنی رہنما کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے حوالے سے بظاہر ان کی غیر سنجیدگی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ تاہم بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمے کے سینیئر وکیل استغاثہ اظہر چوہدری نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس تاثر کو رد کیا کہ ان کی جانب سے مقدمے کی پیروی سست روی کا شکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک 14 گواہان پر جرح ہوچکی ہے اور ان کی طرف سے روزانہ کی بنیاد ہرعدالتی کارروائی کا انعقاد کرنے کی دو مرتبہ درخواستیں بھی دی گئی ہیں مگر ان کے بقول خلاف قانون عدالت نے انہیں مسترد کردیا ہے۔
وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ تحقیقات برطانیہ کی اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیموں کی گائیڈ لائن کے مطابق کی گئیں اور اس واقعے میں تمام مشتبہ افراد کو شامل تفتیش کیا گیا۔ ہم نے جو شواہد جمع کیے وہ انتہائی مہارت اور جدید سائنسی طریقوں سے حاصل کیے اور چالان میں کوئی کمی نہیں۔ جو کچھ ممکن ہو سکا اس میں شامل کیا۔
بے نظیر بھٹو پر خودکش حملہ آوروں کے پانچ معاون زیر حراست ہیں جن کا تعلق وزیرستان اور اس سے ملحقہ ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے ہے۔ دو سینیئر پولیس افسر سعود عزیز اور خرم شہزاد پر الزامات ہیں کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے کارواں کے لیے سکیورٹی پلان میں رد و بدل کی اور واقعے کے فورا بعد جائے وقوعہ کو دھلوا دیا جس سے وکیل استغاثہ کے مطابق اس مقدمے کے کئی اہم شواہد حاصل نہ ہو سکے۔ دونوں افسران اس وقت عدالت کے حکم پر ضمانت پر رہا ہیں۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی اس قتل کے مقدمے میں اشتہاری ملزم قرار دے چکی ہے۔
ہم دو قسم کے گروہوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک دہشت گرد جن کا تعلق وزیرستان سے ہے اور دوسرا با اثر پولیس افسران ہیں۔ باوجود پنجاب حکومت کو معلوم ہے کہ یہ بے نظیر کیس میں مطلوب ہیں انہوں نے وفاق کو خط لکھا کہ انہیں واپس صوبے میں بھیج دیا جائے کیونکہ انہیں ان کی خدمات درکار ہیں۔ تو دبا کس کا ہے۔ ہمارے خلاف فیصلے آرہے ہیں۔ بنیادی قانون کے خلاف فیصلے آرہے ہیں۔
اظہر چوہدری کا کہنا تھا کہ آرمی یا اس کے خفیہ اداروں کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم انہوں نے بتایا کہ اس وقت کے ملٹری انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر میجر جنرل اعجاز ندیم تک ایف آئی اے اور پنجاب پولیس کی تحقیقاتی ٹیموں کو رسائی نہیں دی گئی تھی۔ وکیل استغاثہ نے بتایا کہ متعدد درخواستوں کے باوجود پاکستان آرمی کی جانب سے کی گئی اعجاز ندیم کی تحقیقات کی رپورٹ انہیں اب تک فراہم نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے پنجاب کی اعلی عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے مقدمے میں تاخیر کا فوری نوٹس لے کر اس کے خلاف احکامات جاری کرے۔
جب بھی کوئی جج کچھ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے فورا تبدیل کردیا جاتا ہے۔۔۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بے نظیر قتل کا مقدمہ واحد کیس ہے جو کہ اتنی طوالت کا شکار ہوا۔
وکیل استغاثہ کہتے ہیں کہ پچھلے نو ماہ سے دفاع کے وکلا اس مجسٹریٹ کی جرح کرنے سے بظاہر اجتناب کر رہے ہیں جس نے اس مقدمے میں ملوث مشتبہ دہشت گردوں کے اعترافی بیان قلم بند کیے۔