شامی حکومت کی مذمت پر مبنی یورپی قرارداد کی سلامتی کونسل میں ناکامی کے باوجود ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام پر پابندیاں عائد کرے گا۔مذکورہ قرارداد کو منگل کے روز اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والی رائے شماری کے دوران چین اور روس نے ‘ویٹو’ کردیا تھا جس پر امریکہ اور یورپی ممالک نے شدید برہمی ظاہر کی تھی۔مجوزہ قرار داد میں عندیہ دیا گیا تھا کہ اگر شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت نے جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف جاری پرتشدد کریک ڈائون نہ روکا تو ان کے خلاف پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔بدھ کو جنوبی افریقہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے کہا کہ سلامتی کونسل میں قرارداد کی ناکامی کے باوجود ترکی اور بعض یورپی ممالک اس ضمن میں کوئی اقدام کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔فرانس کے وزیرِ خارجہ ایلن جوپے کا کہنا ہے کہ فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے سخت لب و لہجے کی حامل ایک ایسی قرارداد پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی جس کے ذریعے ان کے بقول شامی عوام کے “قتلِ عام” پر سب کے خدشات کا بھرپور اظہار کیا جاسکے۔انہوں نے قرارداد کے استرداد کے باعث منگل کو شامی عوام اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیے ایک “سوگوار دن” قرار دیا۔لیکن اس کے برعکس شام کے صدر کے ایک اعلی مشیر بوسائنا شعبان نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو میں منگل کو ایک “تاریخی دن” قرار دیا ہے۔’اے ایف پی’ سے گفتگو میں شامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ روس اور چین “شام کے عوام” کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہوں نے [قرارداد ویٹو کرکے] دمشق حکومت کو “اصلاحات کے نفاذ اور ان کی توسیع” کے لیے درکار وقت فراہم کردیا ہے۔شام پر 11 برسوں سے برسرِ اقتدار بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے لیے گزشتہ سات ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے شامی حکومت مسلسل فوجی طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق سرکاری کریک ڈائون میں اب تک کم از کم 2700 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔واضح رہے کہ ترکی نے شامی حکومت کے کئی مخالفین کو سیاسی پناہ فراہم کر رکھی ہے۔ ترکی میں پناہ گزین ایک شامی فوجی کرنل اور ‘آزادی شامی فوج’ نامی حزبِ مخالف کے عسکری دھڑے کے سربراہ کرنل ریاض الاسد کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے رستان کے قصبے میں کیا جانے والا پرتشدد فوجی آپریشن دراصل ان کی گرفتاری کے لیے تھا۔کرنل ریاض کے بقول انہوں نے جولائی میں مظاہرین پر گولیاں چلانے کا سرکاری حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد وہ پناہ کے لیے ترکی چلے آئے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ان کی قیادت میں قائم عسکری گروپ کے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہوگئی ہے جو سرکاری افواج کا ساتھ چھوڑ کر ان سے آن ملے ہیں۔دریں اثنا اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر سوسن رائس نے کہا ہے کہ مسترد کی جانے والی قرارداد کا مسودہ فرانس، برطانیہ، جرمنی اور پرتگال کی جانب سے تحریر کیا گیا تھا اور اس کی مخالفت کرنے والے وہ ممالک ہیں جو ان کے بقول “شام کی حکومت کو ہتھیار فروخت کرتے ہیں”۔امریکی سفیر نے کہا کہ ان کا ملک قرارداد کے ‘ویٹو’ کیے جانے پر “سخت برہم” ہے۔ادھر بدھ کو شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اس خاتون کا ا نٹرویو نشر کیا جس کے بارے میں یہ خبر دی جارہی تھی کہ اسے گزشتہ ماہ مبینہ طور پر سرکاری تحویل میں قتل کردیا گیا ہے۔زینب الحسنی کے نام سے اپنا تعارف کرانے والی اس خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بھائی کے خراب برتائو کے باعث جولائی میں اپنے گھر سے فرار ہوگئی تھی۔ خاتون نے کہا کہ اس نے بھی ٹیلی ویژن پر اپنی موت کی خبر سنی تھی۔گزشتہ ماہ ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ سمیت انسانی حقوق کی کئی عالمی تنظیموں نے کہا تھا کہ شام کی حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے آغاز کے بعد سے الحسنی سرکاری تحویل میں ہلاک ہونے والی پہلی خاتون قیدی ہے۔ان تنظیموں نے الحسنی کی ہلاکت کی سخت مذمت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ خاتون کی والدہ کو اس کی تشدد زدہ لاش ملی ہے۔