تمہیں کیا مِلا منصور اعجاز

Mansoor Ijaz

Mansoor Ijaz

آج ساری پاکستانی قوم منصور اعجاز سے اِنتہائی بھائی بندی سے سوال کرتی ہے کہ تمہیں کیا مِلا مسٹر منصور اعجاز …؟کہ تم نے پاکستان کی لولنگڑی جمہوری حکومت کے سکوت کے ساتھ بہتے ایک دریامیں میموگیٹ کاپتھر پھینک کر اِس میں سیاسی بھونچال پیداکردیا…؟؟ جوآج تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہاہے اِس کو روکنے کی جتنی بھی کوششیں کی جارہی ہیں وہ سب کی سب ناکام ہورہی ہیںجس کی ابتدا تو دکھائی دے رہی ہے مگر اب تک اِس کا آخری سرا ملنے کو ہی نہیں آرہاہے یعنی یہ کہ تمہارے میموگیٹ کی گتھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سلجھنے کے بجائے الٹاالجھتی ہی جارہی ہے…بتاو منصوراعجاز تم کس کے آلہکار بنے…؟اور تم نے کیوں امریکی محکمہ دفاع کوپاکستان میں فوجی بغاوت کوروکنے اور فوج پر سولین کنٹرول قائم کرنے میں مددفراہم کرنے کی درخواست کی…؟؟ کیایہ سب کچھ سچ ہے…؟ اگر تم سمجھتے ہوکہ تم نے یہ سب کچھ خود کیاہے…؟توقوم تم سے یہ پوچھناچاہتی ہے کہ تم کون ہوتے ہوکہ تم ہمارے داخلی معاملات میں دخل اندازی کروں….؟اور اگر تم نے کسی کے اشارے پر یہ سب کیاہے ..؟تو یہ بھی بتادو …تاکہ پاکستان میں آنے والا موجودہ سیاسی بحران کہیں جاکر تھم جائے اور اِس طرح دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجانے کے بعد اِس معاملے میں پس پردہ عناصر اور اشخاص کامکروہ چہرہ قوم کے سامنے آجائے اور قوم اِن سے چکناہوجائے اب اِن تمام حقائق کو آشکار کرنے کے لئے پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصوراعجاز نے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیاہے امیدہے کہ اِن کے پاکستان آنے کے بعد کسی صورت مثبت نتائج سامنے آسکیں گے اور میموگیٹ سمیت این آراو اور دیگر معاملات کے حوالے سے تیزی سے چڑھتی امربیل رک جائے گی اور تمام معاملات کی احساسیت دم توڑ جائیں گیں۔اور ملک کو اپنی مضبوط ترین گرفت میں جکڑے طوفان کا زور ٹوٹ جائے گا۔ بہرحال آج ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اِس بات سے انکار ممکن ہی نہیں ہے کہ جب ملک میں آئین کلیدی حیثیت میں موجودہے تو پھرپارلیمنٹ کی قرار دادوںکی اہمیت ثانوی سی رہ جاتی ہیں اِس حوالے سے ہمارے حکمرانوں وسیاستدانوںکو اور ہمیںاپنی کسی ضد کی وجہ سے بحث وتکرار کرنے کے بجائے دنیاکے ان تہذیب یافتہ ممالک کی پارلیمنٹ کاموازانہ ضرورکرنا لیناچاہئے جن ممالک میں آئین موجودہیں تو وہاں پارلیمنٹ کی قرادادوں کی اہمیت کیا ہوتی ہے ہمیں اِس کا بھی باریک بینی سے ایک جائزہ لے لیناچاہئے ہمارے لئے پھرکسی محاذ آرائی کے لئے کمر بستہ ہوکرمیدان میں گودنا بہتر ہوگا ورنہ توجوکچھ بھی ہم کریں گے وہ سب وقت گزاری اور مرغی کی ایک ٹانگ جیسی بے مقصد بحث و تکرار کے سواکچھ نہیں ہے۔ جبکہ آج حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کا آئین موجودہے اور اِس کی موجودگی میں ہمارے یہاں ایوانوں سے لے کر عام معاملات زندگی میں بھی ایسا کچھ بھی اچھا نہیں ہورہا ہے جس پر سکھ کا سانس لیاجاسکے اگرچہ اِن دنوں کثرت سے دیکھنے میں یہ آرہاہے کہ حکمران اور اِن کے اتحادی اِس بات پر بضد ہیں کہ آئین سے زیادہ پارلیمنٹ کی قرارداوں کو اہمیت دی جائے ۔اور اِس حوالے سے ہمارے یہاں حکومت اور عدلیہ سمیت دیگر قومی اداروں کے درمیان جو گرماگرم صورتِ حال پیداہوچکی ہے اب اِس پر دیکھنایہ ہے کہ یہ سیاسی ماحول کب…؟اور کس موڑ پر جاکرٹھنڈاہوتاہے….؟؟فی الحال…!تو اِس کے بارے میں ابھی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا…ہے کہ حکومت کی جانب سے اعلی عدلیہ اور افواج پاک سے شروع کی جانے والی محاذ آرائی کدھر جاکرختم ہوتی ہے …؟اوراِس سارے معاملے میں کس کی جیت ہوتی ہے …؟اور کس کی ہارہوگی …؟کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔  بہرکیف! اتناضرور ہے کہ این آر اوعملدرآمد کیس میں اعلی عدلیہ نے وزیراعظم کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے واضح طور پر حکم دیاہے کہ وزیراعظم 19جنوری کو عدالت میں پیش ہوں جس کے بعد وزیراعظم نے ایوانِ صدر میںموجودہ جمہوری حکومت کے اِنتہائی طاقتورترین صدر آصف علی زرداری سے ایک اہم ملاقات کی اور اِس کے بعد حکومتی اتحادی جماعتوں کے اپنی زیرصدارت منعقدہونے والے ایک ہنگامی اجلاس میں اپنی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے نمائندگان سے صلح مشورے بھی کئے اور سب کے باہمی مشوروں کے بعد وزیراعظم نے یہ فیصلہ کیاکہ یہ انیس جنوری کواعلی عدلیہ کے سامنے خود پیش ہوکر وہ سب کچھ بیان کردیں گے جس کی وجہ سے یہ این آر او کے معاملے پر اعلی عدلیہ کے احکامات پر عملدرآمد کرنے اور کرانے سے کیوں قاصر نظر آئے حالانکہ ہمارے ملک کا آئین موجودہ ہے تو پھروزیراعظم یوسف رضاگیلانی کیوں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی تضحیک کررہے ہیں ہیں اور جبکہ یہ اِس جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے وزیراعظم ہیں جس کے اکابرین نے ہمیشہ عدلیہ کے فیصلوں کے آگے اپناسر خم کئے رکھاحتی کہ انہوں نے پھانسی کے پھندا اپنی گردن میں ڈال لیا مگر عدالت کے ہر فیصلے کو منا ہے۔
مگر آج سوچنے کی بات تویہ ہے کہ کیا وجہ ہے اس ہی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی عدالت کے فیصلوںکا مزاق اڑاتے کیوں نظرآرہے ہیں …؟؟ قوم اِن سے یہ جانناچاہتی ہے کہ ایک ایسی جماعت جس نے آئین اور قانون کی بالادستی کو اپنی کامیابی کا ضامن جاناہے اِس کے موجودہ حکمران عدلیہ سے ٹکراو کا ماحول کس لئے پیداکئے ہوئے ہیں …؟ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ایسے اور بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اپنے موجودہ جمہوریت پسند حکمرانوں سے لیناچاہتی ہے کیاعوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے اِن چیدہ چیدہ سوالات اور کسی مخمصے کا تسلی بخش جواب ہمارے حکمران دے پائیں گیں….؟جنہوں نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں عوامی مسائل سے منہ موڑے رکھااور عوام کوبے رحم حالات کے منجھدار میں چھوڑکر اپنی تمام تر توجہ ملک میں جمہوریت کوگھسیٹنے اور اِسے اپنے این آراو زدہ کاندھوں پر اٹھائے لے پھرنے کے کچھ بھی نہ کر سکے۔ اِس طرح گزشتہ چار سالوں میں عوام اپنے بنیادی حقوق بجلی، گیس، پانی، تعلیم وصحت اور علاج ومعالجہ اور سفری سہولیات سے محروم ہوتے رہے اور حکمران رہے کہ یہ اِس سارے عرصے میں ملک میںاپنے مطلب کی جمہوریت کے نشیب وفراز کے مزے لوٹتے رہے اوراب جب کہ عدالت عظمی حکمرانوں کوجو جمہوریت اور قانون کے بڑے پاسداربنے پھرتے ہیں اِنہیں اپنے احکامات پر عمل کرنے اور کروانے کے لئے کہہ رہی ہے تو یہ عدالت کا حکم ماننے سے سرے ہی انکاری ہورہے ہیں اور اِس کامزاق آڑانے کواپنی بقاوسلامتی کی وجہ قرار دے رہے ہیںایساکیوں ہے..؟جبکہ حکومت کے اتحادی موجودہ صورتِ حال میں کہہ چکے ہیں کہ یہ این آر او کے معاملے میں عدالت سے حکومتی ایماں پر تصادم میں حکومت کا کسی بھی حال میں ساتھ نہیں دیں گے….؟مگر اِس کے باوجود بھی حکومت سیاسی شہیدبننے کے چکرمیں اکیلے ہی عدالت میں جانے کا اپنامصمم ارادہ کر چکی ہے۔  جبکہ یہ حقیقت ہے کہ توہین عدالت کے بعدنوٹس جاری ہونے پر وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے پاس قانونی اور اخلاقی طور پر کوئی جواز نہیںرہ جاتا ہے کہ یہ بحیثیت وزیراعظم اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکیں اِنہیں اپنے عہدے سے فورا استعفی دے دنیاچاہئے تھا مگرمعلوم نہیں انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا….؟؟اوراِسی کے ساتھ ہی ہم آخر میں یہ کہہ کر اجازت چاہیں گے کہ 19جنوری کو قوم جان لے گی کہ ہماری اعلی عدالت اِخوان الشیاطین سے ملک اور قوم کو نجات دلوانے کے لئے ملک میں ایک ایسی تاریخ رقم کرے گی جو ملک میں آئندہ اِخوان الصفا کے اقتدارکے لئے مشعل راہ ثابت ہو گی۔
تحریر :  محمد اعظم عظیم اعظم