اومابا انتظامیہ نے پاکستان پر کڑی تنقید میں کچھ کمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے انسداد دہشت گردی کی مہم میں پاکستان کا مزید تعاون ناگزیر ہے۔امریکہ کے سبک دوش ہونے والے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن کی گزشتہ ہفتے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر الزام تراشی کے جواب میں جہاں پاکستان نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے وہیں بعض حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ امریکہ عسکریت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف پاکستانی حدود میں فوجی کارروائی بھی کر سکتا ہے۔تاہم اس بظاہر سنگین صورت حال میں وائٹ ہاس، محکمہ دفاع یا پینٹاگون اور محکمہ خارجہ نے ایڈمرل ملن کے اس بیان کی توثیق سے انکار کر دیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک آئی ایس آئی کا دست بازو ہے۔وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ بے شک پاکستان اور امریکہ کے تعلقات انتہائی مشکل اور پچیدہ ہیں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ مشکلات کے باوجود ہمیں ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ادھر وائٹ ہاس کے پریس سیکرٹری جے کارنی کا کہنا تھا کہ ایڈمرل ملن کا بیان امریکی موقف کے عین مطابق ہے لیکن اس زبان کو میں نہیں استعمال کروں گا۔پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جارج لٹل کا کہنا ہے کہ وزیر دفاع لیون پنیٹا اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی حکومت بشمول آئی ایس آئی میں بعض عناصر ایسے ہیں جو حقانی نیٹ ورک کی بظاہر مدد کر رہے ہیں۔اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی بدھ کی اشاعت میں ایڈمرل ملن سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا کہ گو کہ آئی ایس آئی حقانی نیٹ ورک کی حمایت کر رہی ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ اس عسکریت پسند گروہ کی کارروائیوں پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔ایڈمرل ملن نے کہا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ آئی ایس آئی نے حقانی نیٹ ورک کی مدد کی ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ حقانیوں کو بجلی کے سوئچ کی طرح کھولا اور بند کیا جا سکتا ہے لیکن ایسے اقدامات ضرور ہیں جنھیں لے کر وقت کے ساتھ ساتھ حقانیوں کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔