کمپیوٹر کی اسکرین روشن تھی ۔ ثمینہ پورے انہماک کے ساتھ اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھی تھی ۔ اسے اپنے گردوپیش کا ہوش نہیں تھا ۔ اس کے دائیں ، بائیں اوپر نیچے کمپیوٹر اسکرین ہی پھیلی ہوئی تھی۔ یاہو ، ایم ایس این کی مختلف ونڈوز کھلی ہوئی تھیں ۔ اس کی مخروطی انگلیاں نہایت سرعت کے ساتھ کی بورڈ پر حرکت کر رہیں تھیں ۔ چٹ چٹ کی ٹائپنگ کی خفیف آواز بھلی معلوم ہورہی تھی ۔ سر پر ہیڈ فون جما ہوا تھا ۔
اس کے ہونٹ بھی مسلسل ہل رہے تھے ۔ شاید وائس چیٹ ہو رہی تھی ۔ سب سے ذیادہ حیرت انگیز اس کے چہرے کے تاثرات تھے ۔ ہر ونڈو کے ساتھ ساتھ اسکے چہرے کے تاثرات تبدیل ہو رہے تھے ۔ کبھی چہرے پر مسکراہٹ ، کبھی غصہ کبھی ناراضگی ، کبھی پیار کبھی شرارت اور کبھی ذہانت آتی جاتی نظر آ رہی تھی ۔
وہ بیک وقت مختلف لوگوں سے بات کر رہی تھی۔ یہ اس کا حد درجہ انہماک ہی تو تھا کہ وہ جس سے جس طرح کی بات کر رہی تھی ویسے ہی اس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہو رہے تھے اور یہ تبدیلی منٹوں میں نہیں سیکنڈوں میں رونما ہو رہی تھی ۔ اس کے ذہن کی فطانت اور برق رفتاری کی انتہا تھی ۔
اس کا کوئی بھی مخاطب یہ محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اتنی محویت سے اس کے سوا کسی اور سے بھی گفتگو کر رہی ہے ۔ بیک وقت موبائل کی ٹوں ٹوں بھی چل رہی تھی ۔ وہ اچھا ، ہاں ، کیوں ، کب ، کیسے ، واہ ، زبردست ، اور اسی طرح کے مختصر ایس ایم ایس کے لوگوں کو جوابات دے رہی تھی لیکن جب موبائل نے زیادہ تنگ کیا تو اس نے موبائل آف کر کے بیڈ کی جانب اچھال دیا ۔ اب اس کی تمام توجہ کمپیوٹر اسکرین کی طرف تھی اور ہاتھ کی بورڈ پر چٹ چٹ کھٹ کھٹ کرنے میں مصروف تھے ۔
ایک سے فلسفے پر بات ہو رہی تھی تو دوسرے سے مو سیقی پر تو کسی سے شاعری پر تو کسی سے مزاحیہ فقرے بازی ۔ کسی کو اپنی طبیعت کا حال بتارہی تھی تو کسی سے اس کی طبیعت کا حال پوچھ رہی تھی ، کسی کو کھانا کھلایا جا رہا تھا کسی کے سامنے بھوک ہڑتال کی جا رہی تھی ۔ ایک بے انتہا خوب صورت کھیل تھا ۔ جسے وہ نہایت مہارت سے کھیل رہی تھی ۔
keyboard typing
یہ اس کی دنیا تھی اسکی دنیا جو اس نے بہت محنت سے بسائی تھی ۔
وہ جن لوگوں سے باتیں کر رہی تھی وہ اس کی مرضی کے لوگ تھے ۔ جو اس نے چن چن کر اپنے گرد جمع کیے تھے ۔ اس کا ہر مخاطب اپنی مثال آپ تھا ۔ وہ سب کے جذبات اور خیالات کے مختلف رنگ تھے جنہیں اس نے دانستہ اپنے گرد پھیلا دیا تھا ۔ سب کے سب پھول تھے جو اس نے اپنے گلدستے میں سجا رکھے تھے ۔ سب کے سب اسے پیارے تھے ۔ ان میں سے ایک پھول کا بھی کم ہونا اسے گوارہ نہ تھا ۔ یہ چمن اس نے بڑی عرق ریزی سے سینچا تھا ۔ بس اب یہی اس کی کل دنیا تھی ۔ اس کی زندگی کی نوید لے کر طلوع ہونے والا سورج اس دنیا میں چمکتا تھا ۔ نیٹ کی اس دنیا سے باہر اس کے لیے اندھیرا تھا ۔ تنہائی ہی تنہائی تھی ۔ ہولناک سوچیں تھیں ۔
وہ جب پیدا ہوئی تو اس کی ماں مر گئی ۔ کڑوڑ پتی باپ نے فورا دوسری شادی کر لی اور اس کے کچھ عرصے بعد ہی تیسری کر لی ۔ سوتیلی ماں نے سوتیلے پن کا بھر پور مظاہرہ کیا ۔ اس پر وہ تمام جبروستم روا رکھے گئے جو قصے کہانیوں میں سوتیلی ماں سے منسوب ہیں ۔ باپ کا دم غنیمت تھا جو اس نے ماسٹرز کر لیا تھا ورنہ اسے تو مڈل پاس کرتے ہی گھر بٹھانے کا سوچ لیا گیا تھا ۔
ماسٹرز کرتے ہی اسے ایک دور پرے کے رشتے دار کے ساتھ شادی کر کے روانہ کر دیا گیا سوتیلے بہن بھائی کیا کم تھے جو شوہر ان سے بڑھ کر ملا ۔ لالچی اور خود غرض شخص اس کا شوہر بنا دیا گیا ۔ شادی کے چھ ماہ بعد ہی ثاقب نے اس کے ابو سے جائیداد میں سے اس کے حصے کا مطالبہ کیا ۔ سوتیلی ماں کو بھلا یہ بٹوارا کیسے گوارا ہوتا ۔ نتیجتا شادی کے پہلے سال ہی طلاق کا جھومر اس کے ماتھے پر سجا دیا گیا ۔
اس نے ایک طرح کا سکون کا سانس لیا ہی تھا کے ثاقب سے جان چھوٹی لیکن قسمت ابھی اس سے مزید مذاق کرنا چاہ رہی تھی اس کی حمایت کرنے والا واحد شخص اس کا باپ چل بسا ۔ ابو کے انتقال کے بعد طعنوں اور الزام تراشیوں نے اس کا جینا دو بھر کر دیا تھا ۔ آخر ایک دن بد چلنی کا الزام لگا کر اسے گھر سے باہر کر دیا گیا ۔ گھر سے باہر اس پر کیا بیتی یہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن تعلیم اس کے کام آئی ۔ اس نے ملازمت کر لی اور باپ کی جائیداد میں سے اپنے حصے کا مقدمہ کر دیا ۔
خوش قسمتی کو اس نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا جب مقدمے کا فیصلہ اس کے حق میں ہوا تھا ۔ ایک کوٹھی اور معقول نقد رقم اسے مل گئی ۔ وہ دارالامان سے نکل کر اپنی کوٹھی میں آگئی اور رقم بینک میں ڈپازٹ کروا دی جس کا ماہانہ منافع اس کی ضرورت سے زائد مل جایا کرتا تھا ۔
سوتیلے بہن بھائیوں اور ماں نے اب بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا تھا ۔ آوارہ لوگوں کو اس کے پیچھے لگا کر اسے بدنام کیا جاتا ۔ کوٹھی سے باہر قدم نکالنا اس کے لیے دو بھر ہو گیا تھا ۔ گھر کی چار دیواری کا سناٹا اس کے وجود کو چھلنی کر دیتا تھا اور اگر گھر سے باہر نکلتی تو بد چلنی کا طعنہ اسے جیتے جی مار دیتا تھا ۔
ملازمت بھی اس نے چھوڑ دی تھی ۔ اس کے آفس میں بھی اسے بدنام کر دیا گیا تھا ۔ اس نے جس پر بھروسہ کیا اسی نے دھوکا دیا ۔ ہر آدمی پر سے اس کا اعتماد اٹھ چکا تھا ۔ وہ اس بھری پری دنیا میں تنہائی کا شکار تھی ۔ المناک وحشت ناک تنہائی۔
دن تو کٹ جاتا تھا لیکن رات نہیں کٹتی تھی ۔ ایک دن کینیڈا سے اس کی کلاس فیلوز کا فون آیا ۔ فوزیہ شادی ہو کے کینیڈا جا بسی تھی ۔ فوزیہ نے اسے انٹر نیٹ رابطے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ نیٹ کے زریعے ہماری ذیادہ سے ذیادہ بات ہو سکتی ہے ۔ فوزیہ سے بات کرنے کے لیے اس نے کمرے میں نیٹ کی سہولت حاصل کر لی۔
کمپیوٹر کورسز اس نے کر رکھے تھے ۔ پہلے دن اس نے فوزیہ سے چیٹ کی اسے بہت اچھا لگا ۔ دو گھنٹے بات کر کے فوزیہ آف لائن ہو گئی ۔ وہ اب پھر تنہا ہو گئی لیکن اب وہ تنہا نہیں تھی وہ نیٹ کی دنیا کو اپنے گھر لے آئی تھی ۔ دنیا کے رنگ برنگے کروڑوں انسان اس کے کمرے میں در آئے تھے ۔ رفتہ رفتہ نیٹ کی دنیا کے اثرات اس پر کھلتے چلے گئے ۔
yahoo chat room
یاہو چیٹ رومز ، ایم ایس این چیٹ رومز ۔ ایم آئی آر سی چیٹ ، اور پھر تو چیٹ کا ایک لا متناہی سلسلہ چل نکلا ۔ شروع میں اس سے بہت غلطیاں ہوئیں ، غلط لوگوں کو دوست بنا بیٹھی تھی لیکن رفتہ رفتہ وہ سیکھتی چلی گئی ۔ اب وہ صرف ایک چیٹ میں مخاطب کو جانچ لیتی تھی کہ یہ بندہ دوستی کے لائق ہے یا نہیں ۔ اس نے دھیرے دھیرے چن کے دوست بنانا شروع کر دیئے جو نا پسند ہوئے انہیں لسٹ سے خارج کر دیا اور جو من کو بھایا ان سے تعلق مضبوط کر لیا ۔
اور یوں اس کا خواب پورا ہو گیا ،اس کے گھر کا خواب جہاں اس سے محبت کرنے والے بہن بھائی اور دوست موجود تھے۔ اس سے باتیں کرتے تھے اس کا خیال رکھتے تھے۔ زندگی کی معمولی سے معمولی بات پر بھی توجہ دی جاتی تھی وہ بہت خوش تھی ۔ بہت کم ایسا وقت آتا تھا جب وہ اپنے کمپیوٹر کے سامنے سے اٹھتی تھی۔ ایک ملازمہ رکھی ہوئی تھی جو گھر کا کام کاج کر دیا کرتی تھی ۔
یوں تین سال کا عرصہ بیت گیا اسے اپنے کمپیوٹر کے سوا کسی چیز کا ہوش نہیں تھا کبھی کبھی وہ مارکیٹ یا بینک جاتی تو نیٹ کی باتیں اس کے ذہن مین گردش کر رہی ہوتی تھیں ۔ ارم ناراض ہو گئی ہے اسے منانا ہے ، ماجد سے ابھی بات نہیں کرنی تاکہ اسے پتہ چلے کہ بڑی بہن کو نظر انداز کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، عریبہ کی طبیعت خراب ہے یہ عریبہ بھی نکمی ہے اپنا خیال نہیں رکھتی اگر آج یہ ڈاکٹر کے ہاں نہ گئی تو اس سے اچھی طرح نمٹوں گی، رامس کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے عجیب عجیب باتیں کرنے لگ گیا ہے، شعر وشاعری شروع کر رکھی ہے۔
وہ جتنی دیر کمپیوٹر سے دور رہتی اسی طرح کی باتیں اس کے ذہن میں گردش کرتی رہتیں، وہ جلد از جلد کمپیوٹر پر پہنچتی اور پھر اپنی دنیا میں کھو جاتی۔ وہ جن سے بات کرتی تھی ان میں سے ایک دو کے چہرے اس نے نہیں دیکھے تھے لیکن ہر بندے کی باتوں سے اس کی خیالی تصویر اس کے ذہن میں بنی ہوئی تھی کچھ پرانے دوست اب اس سے ملاقات کا تقاضا کرنے لگے تھے انہیں وہ خوبصورتی سے ٹال دیتی تھی وہ کمپیوٹرسکرین سے باہر نہیں آنا چاہتی تھی ۔باہر کی دنیا اس کے لئے بہت خوفناک تھی۔
اس نے ایک احتیاط رکھی تھی، اسکے تمام دوست صرف اسی سے واقف تھے،اس نے کبھی کسی ایک دوست کو کسی دوسرے دوست سے نہیں ملوایا تھا بلکہ اکثر دوست یہی جانتے تھے کہ وہ صرف اسی کی دوست یا بہن ہے۔ ابتدا میں اس نے گروپ کی شکل میں بھی دوستیاں کی تھیں لیکن جلد ہی ان میں لڑائی جھگڑے پیدا ہوگئے تھے اور وہ ان لڑائی جھگڑوں سے اپنی اس پیاری سی نیٹ کی دنیا کو محفوظ رکھنا چاہتی تھی اسی لئے اس نے یہ احتیاط رکھی تھی اب وہ اپنے ہر دوست کی تنہا دوست تھی اور وہ پوری ایمانداری سے سب دوستوں کو برابر توجہ دیا کرتی تھی۔
اس نے قریبی دوستوں کو اپنا فون نمبر بھی دیا ہوا تھا۔ یہ اس کی آخری حد تھی۔ فون نمبر سے آگے وہ نہیں جا سکی تھی اور نہ جانا چاہتی تھی ۔اس کی ملازمہ اکثر کہا کرتی تھی۔ بی بی جی آپ شادی کر لیں، ابھی تو آپ جوان ہیں، خوبصورت ہیں عمر ڈھل گئی تو مشکل ہوجائے گی۔ وہ مسکرا کر ملازمہ کو دیکھتی اور کہتی،”شادی کر لی ہے۔ میری شادی اس کمپیوٹر سے ہو چکی ہے زندگی کے سارے سکھ مجھے اس کمپیوٹر نے دیے ہیں نوری، اب مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔ ایک شادی کی تھی اس کی اذیت آج تک میرے وجود میں زندہ ہے ۔” نوری بحث کرتی لیکن وہ نوری کو لاجواب کر دیتی اسے کمپیوٹر نے جتنا پیار دیا تھا اس کا ہزارواں حصہ بھی اسے زندگی کی حقیقی دنیا سے نہیں ملا تھا۔
کھانے کے وقت اسے بہت سے ایس ایم ایس آجاتے کہ کھانا کھا لیں ٹائم ہوگیا ہے، وہ ذرا بیمار پڑ جاتی تو سب بے چین ہوجاتے اور اپنی بے تابی کا اظہار کرتے اور وہ اظہار اتنا بھرپور ہوتا کہ گویا خود بیمار ہوگئے ہوں۔
وہ خوش تھی بے انتہا خوش۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ایک دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دن اسے گمنام ای میل موصول ہوئی اس نے ونڈو اوپن کی تو جیسے سکرین پر زلزلہ سا آگیا ہو،کروڑوں کیڑے مکوڑوں کی طرح ہندسے سکرین پر ناچنے لگے۔ وہ پریشان ہوگئی ،کچھ دیر میں سب ٹھیک ہوگیا ۔اس نے دم ہی لیا تھا کہ یاہو میسینجر کی ایک ونڈو اوپن ہوگئی،کوئی نئی آئی ڈی تھی ۔”جی ایم ”
جی ایم نے ہائے کہا تھا۔ اس نے بہت غور کیا لیکن اسے یاد نہیں آیا تھا کہ یہ کون ہو سکتا ہے اس نے جی ایم سے مختصر چیٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور جواب دیا “ہائے ٹو ” جی ایم : کیا حال چال ہیں محترمہ ثمینہ صاحبہ؟ ثمینہ اپنا نام سن کر چونکی، یہ تو نام بھی جانتا ہے، یقینا کوئی دوست ہوگا جو آئی ڈی بدل کر بات کر رہا ہے ثمینہ : میرا حال چال پوچھنے والے آپ کون ہیں؟ جی ایم : اب تو میں ہی ہوں آپ کا حال چال پوچھنے والا ، باقی سب کی چھٹی ۔ ثمینہ : شٹ اپ۔ تم کون ہو اپنا تعارف کرواؤ؟ جی ایم : میں تمہارا نیا بوائے فرینڈ ہوں ۔ بولو کیسا لگا!
اتنی بد تمیزی پر ثمینہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ نیٹ پر اس طرح کے واہیات لوگ بھی ٹکرتے رہتے تھے ۔اس نے فورا ونڈو کلوز کی اور اس کی آئی ڈی بلاک کر دی لیکن بلاک ہوجانے کے باوجود ونڈو پھر اوپن ہوگئی۔
جی ایم : ہاہاہاہاہا۔ تم کچھ نہیں کر سکتیں، تم میرے قبضے میں آگئی ہو۔ ہاہاہاہاہا ۔ ثمینہ :” شٹ اپ ۔کون ہو تم اور کیسے ختم کیا یہ بلاک تم نے ؟ جی ایم ۔”تم سے ملنا چاہتا ہوں اور کچھ پیسے بھی چاہتا ہوں ۔ ثمینہ نے پھر اس کی ونڈو بلاک کر دی لیکن وہ پھر اوپن ہو گئی۔
جی ایم : ثمینہ رانی میری جان تمہارا کمپیوٹر ہیک ہو چکا ہے۔ اب یہ میرے کنٹرول میں ہے ۔ہاہاہاہاہاہا۔ ثمینہ :کیا مطلب ہے تمہارا؟ ثمینہ نے ہیکنگ کے بارے میں سن تو رکھا تھا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ ہیکنگ کیا ہے ۔ جی ایم ۔: اپنے گھر کا پتہ بتاؤ اور بیس ہزار کا انتظام رکھو میں لینے آرہا ہوں ۔ ثمینہ : بڑی خوش فہمی میں مبتلا لگتے ہو۔ بیمار ذہنیت کے بیمار انسان ،دفع ہو جاؤ کیا کر لوگے تم میرا ؟ جی ایم : ٹھیک ہے نہ بتاؤ۔ میں تمہارے تمام دوستوں کو تمہاری چیٹنگ ای میلز کر دیتا ہوں ، رزاق، عریبہ، ماجد، رامس، ارم، فیصل، عرفان، اقبال، روشنی اور نام گنواؤں میں ان سب کو تمہاری چیٹنگز بھیجتا ہوں ۔
تمہارے پاس میری چیٹ کہاں سے آئی ؟ جی ایم : یہ دیکھو! جی ایم نے اس کی چیٹنگز کی کاپیاں اسے بھیجنا شروع کر دیں اور وہ یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر حیران پریشان تھی۔ صدمے سے اس کا دم نکلتا جا رہا تھا، یہ کون تھا جو اس کی زندگی کے رنگ اس سے چھیننے چلا آیا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ چیٹنگز اس کے دوست پڑھیں گے تو سب کچھ ختم ہوجائے گا اس کے چند جھوٹ کھل جائیں گے ۔یہ جھوٹ تو اس نے محض اپنا نیٹ خاندان بسانے کے لئے بولے تھے وہ کسی بھی قیمت پر اپنا یہ خاندان ٹوٹنے نہیں دینا چاہتی تھی۔
ثمینہ : تمہیں پیسے چاہئیں نا تو مل جایئں گے مجھے اپنا ایڈریس بتاؤ میں پوسٹ کردوں گی لیکن خداکے لئے میری زندگی مجھ سے نہ چھینو ۔ جی ایم : ایڈریس بتادوں؟ تاکہ تم پولیس کو روانہ کردو۔ زیادہ ہوشیار بننے کی کوشش نہ کرو اور شرافت سے اپنا ایڈریس بتادو ۔ ثمینہ : نہیں میں ایڈریس نہیں بتا سکتی تمہیں جو کرنا ہے کر لو۔
ثمینہ نے اچانک ایک فیصلہ کرتے ہوئے کہا جیسے وہ کسی نتیجے پر پہنچ گئی ہو اور یہ کہ کر اس نے اپنا کمپیوٹر آف کر دیا۔ اس کے ذہن مین آندھیاں چل رہی تھیں اسے اپنا آشیانہ بکھرتا ہوا محسوس ہورہا تھا وہ جانتی تھی کہ اگر اس کی ایک سے کی جانے والی چیٹ دوسرے کو دکھائی گئی تو اس کے اپنے اس سے دور ہوجائیں گے اور اگر دور نہ بھی ہوئے تو ان کا وہ خلوص اور محبت جس کا وہ اس سے اظہار کرتے تھے کہیں کھو جائے گی۔
جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا اس کی زندگی میں یہ تین سال ہی تو تھے جو اس کے لئے خوشیاں لائے تھے ۔اس نیٹ کے تو اپنوں نے ہی اس کو پیار کی لذت سے آشنا کروایا تھا وہ اب اس نیٹ کی دنیا سے باہر نہیں آنا چاہتی تھی ۔یہ بہت مشکل سے اس نے بسائی تھی ۔یہ جی ایم نہ جانے کہاں سے آگیا تھا۔جو اس سے سب کچھ چھین لینا چاہتا تھا کیا بگاڑا تھا جی ایم کا اس نے؟ کیوں وہ اس کے سکھ چین کے درپے ہوگیا تھا کیا وہ اب رزاق عریبہ، ماجد، رامس، ارم، فیصل، عرفان، اقبال، روشنی، رمشا کو کھو دے گی؟
وہ اچھی طرح جانتی تھی ان میں کوئی بھی آپس میں ایک دوسرے کا وجود برداشت نہیں کرے گا لیکن اس کے لئے تو سب برابر تھے وہ تو سب کو یکساں پیار دیا کرتی تھی اس نے کسی سے جھوٹ نہیں بولا تھا کہ وہ صرف اسی سے پیار کرتی ہے بلکہ اس نے اپنی مالا کے ہر موتی کو ایک دوسرے سے چھپایا تھا۔ وہ کسی کو بھی گنوانا نہیں چاہتی تھی ۔
pray
لیکن اس جی ایم کو بھی کسی قیمت پر اپنے گھر کا ایڈریس بھی نہں دینا چاہتی تھی لیکن یہ بات بھی یقینی تھی کہ اگر اس جی ایم نے اس کی چیٹنگز سب دوسروں کو دے دیں تو کوئی بھی اس سے بات کرنا گوارہ نہیں کرے گا۔ وہ دعا کرنے لگی کہ کاش کوئی معجزہ ہوجائے، جی ایم کو شرم ہی آجائے۔ اس کا بھرم رہ جائے۔ بہت برا ہو جائے گا۔
رزاق تو اس کی ذرا برابر بھی بے توجہی برداشت نہیں کرے گا اور وہ رامس، رامس تو پہلے ہی کہتا ہے کہ آپی میرے سوا کسی سے بات نہ کیا کریں۔ میں آپ کے سوا کسی سے بات نہیں کرتا اور اس نے رامس کو کتنا یقین دلا رکھا ہے کہ اس کی آپی اس کے سوا کسی سے بات نہیں کرتی۔ عریبہ تو ویسے ہی جذباتی ہے۔ سب کچھ بگڑتا نظر آ رہا تھا کاش وہ سب کو ایک دوسرے سے متعارف کروائے رکھتی لیکن یہ بھی ممکن نہیں تھا ۔کیونکہ اس طرح اسے کوئی بھی انفرادی توجہ نہیں دیتا۔
اسے تو پیار چاہئے تھا۔ بے پناہ اور بہت زیادہ پیار۔ بہت زیادہ توجہ اور بہت زیادہ اہمیت چاہئے تھی وہ ان تین سالوں کے سوا اسے زندگی میں پیار نہیں ملا تھا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ فون کی بیل بجی۔ سکرین پر رامس کا نمبر تھا اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کال ریسیو کی اس کے ہیلو کہتے ہی رامس شروع ہوگیا۔ رامس نے بے نقط سنانی شروع کر دیں۔ نہ جانے وہ کیاکیا بولتا رہا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آئی بس وہ اتنا جانتی تھی کہ وہ اس کا رامس نہیں ہے یہ تو کوئی اجنبی رامس تھا۔
اسے برا بھلا کہ کر رامس نے خود ہی کال اینڈ کر دی، وہ فون کو حیرت سے تکنے لگی، بیل دوبارہ بج اٹھی ۔اب ماجد کا نمبر تھا اس نے بھی وہی کیا جو رامس کر چکا تھا۔ پھر تو فون کالز کا تانتا بندھ گیا اور وہ پتھر بنی ہوئی اپنوں کو اجنبی بنتی ہوئی دیکھتی رہی۔ ایک ایک کر کے سب نے کالز کیں اور ایک مرتبہ اسے برا بھلا کہنے سے کسی کا دل نہیں بھرا تو دوبارہ اور سہ بارہ کال کر کے دل کی بھڑاس نکالی گئی ۔
Mobile Phone
اس نے ایک لفظ نہیں کہا۔ اس کی تو سماعتیں بہری ہوگئی تھیں آخر اس نے موبائل آف کر کے ایک طرف پھینک دیا اس کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ اب وہ پھر تنہا ہو چکی تھی ،مانوس لوگ اس سے دور جا چکے تھے اس کا کمرہ جو خوشیوں اور شوخیوں کا مسکن تھا اب اجاڑ اور ویران باغ میں تبدیل ہوچکا تھا۔
وہ اوندھے منہ بیڈ پر پڑ گئی اور پھر آنسو اس کے قابو میں نہیں رہے۔ وہ روئی ساری رات روتے روتے گذار دی اسے ان لوگوں سے بچھڑنے سے زیادہ اس بات کا غم تھا کہ وہ جنہیں اپنے اتنا قریب سمجھتی رہی ہے وہ اس کے قریب نہیں تھے ان میں سے کوئی بھی اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔
ان میں سے کوئی تو ایسا ہوتا جو کہتا کہ نہیں کچھ بھی ہوجائے مجھے تو ثمینہ سے پیار ہے، اعتبار ہے۔ ثمینہ نے جو کچھ بھی کیا ہوگا وہ غلط نہیں ہوگا لیکن کسی نے کچھ جاننے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی بس ایک منٹ میں سب کچھ ختم کر دیا۔
سب نے جی ایم کا اعتبار کیا تھا اور اس کا کسی نے اعتبار نہیں کیا تھا۔ ایک ہفتہ گذر گیا وہ بیڈ پر ہی پڑی رہی تھی اس نے نہ تو کمپیوٹر آن کیا اور نہ ہی موبائل فون۔ چار دن تک وہ بخار میں پھنکتی رہی تھی۔ نہ رات کو سوتی تھی اور نہ کچھ کھایا جاتا تھا۔ رنگ زرد پڑ گیا ۔آنکھوں کے گرد حلقے نمایاں ہوگئے تھے۔
اس نے اب دیواروں سے باتیں کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اب دھیرے دھیرے دیواروں سے باتیں کرنے لگ گئی تھی۔ نوری آتی اس کی خدمت کرتی، اسے سمجھاتی بہلاتی لیکن بے سود، اب ثمینہ کچھ نہیں سننا چاہتی تھی وہ بس اب صرف اور صرف تنہا رہنا چاہتی تھی۔ اسے اب نوری کی بھی ضرورت نہیں تھی وہ نوری کو بھی جھڑکنے لگی تھی ۔
ایک دن نوری آئی تو اس کے ہمراہ ایک جوان لڑکی تھی۔ وہ لمبے قد کی ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ نوری نے بتایا کہ یہ ڈاکٹر ہے اور نوری ثمینہ کے ہاں سے جانے کے بعد اس ڈاکٹر کے گھر میں کام کرتی ہے۔ نوری نے اسے ثمینہ کا ساراحال سنایا تو وہ زبردستی نوری کے ہمراہ چلی آئی وہ آتے ہی بے تکلفی سے ثمینہ کے بیڈ پر اس کے سرہانے بیٹھ گئی اور بولی! کیسی ہو ثمینہ؟ میں تمہاری دوست فائزہ ہوں “۔ فائزہ کے لہجے میں اتنی مٹھاس اور خلوص تھا جیسے وہ برسوں سے ثمینہ کو جانتی ہو۔
ثمینہ نے اداس اور سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تو فائزہ نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ہلکا سا بخار ہے تمہیں تو! کیسا زرد رنگ ہو رہا ہے تمہارا؟ تم نے دوا لی ہے؟ ڈاکٹر کو دکھایا ہے؟ کب سے ایسے پڑی ہو؟ فائزہ نے اوپر نیچے بے شمار سوالات کر دیے۔
ثمینہ خاموش رہی، نوری بولی،” یہ دوائی نہیں لیتی ہیں۔ ایسے ہی پڑی رہتی ہیں۔ بس اس کمپیوٹر کو تکتی رہتی ہیں۔: فائزہ سب کہانی نوری کی زبانی پہلے سن چکی تھی۔ اس نے بظاہر شوخ نظروں سے ثمینہ کا جائزہ لیا لیکن وہ اندر ہی اندر بہت تیزی سے یہ سوچ رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔کسی نتیجے پر پہنچ کر فائزہ نے خود کلامی کی ۔”آہا پی سی۔ یہ بڑا اچھا ہوا۔ تھینک یو نوری تم یہاں لے آئی ہو۔ میرا پی سی خراب پڑا ہے اور مجھے کچھ میلز چیک کرنی ہیں۔ یہ کہہ کر فائزہ تو جھٹ کمپیوٹر پر جا پہنچی۔
فائزہ کو سوئچ آن کرتے دیکھ کر ثمینہ ایک جھٹکے سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔ وہ اس سے کہنا چاہتی تھی کہ خدا کے لئے اسے آن نہ کرو۔ میں اب اس سکرین کو آن نہیں دیکھ سکتی لیکن وہ کہنے کی کوشش ہی کرتی رہ گئی اور فائزہ نے کمپیوٹر آن کر دیا۔
وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اٹھے اور کمپیوٹر پر جا کر بیٹھ جائے لیکن پھر اسے یاد آیا وہاں اب اس کا کوئی نہیں ہے۔ سب اسے برا سمجھتے ہیں۔ ایسا کوئی نہیں نکلا جس نے اسے سمجھنے کی کوشش کی ہو۔ فائزہ نے اپنا میل باکس اوپن کیا اور میل چیک کرنے لگی، پھر اس نے میسینجر سائن ان کرنے کے لئے ونڈو اوپن کی تو میسینجر آٹو سائن ان پر سیٹ تھا۔
فائزہ کن اکھیوں سے محسوس کر رہی تھی کہ ثمینہ کی نظریں کمپیوٹر اسکرین پر ہی جمی ہوئی ہیں۔ فائزہ نے ثمینہ کی آئی ڈی ہی سائن ان کر لیا۔ ثمینہ نے اسے پھر روکنا چاہا لیکن کچھ بھی نہ کر سکی اور سوچنے لگی کہ یہ کون ہے اور کیوں خواہ مخواہ اس کے معاملات میں دخل اندازی کر رہی ہے۔ جیسے ہی ثمینہ کا یاہو میسینجرسائن ان ہوا ثمینہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
طنز اور طعنوں بھرے جملے اس کے کانوں میں پگلے ہوئے سیسے کی طرح اترنے لگے لیکن اس کی ساکت اور بے رونق نظریں مسلسل کمپیوٹر اسکرین پر جمی ہوئی تھیں۔ یہ رامس اور ماجد کے آن لائن ہونے کا ٹائم تھا سکرین پر فورا رامس کی ونڈواوپن ہوئی؟ رامس : سلام آپی! رامس :آپی کیسی ہیں آپ؟ رامس : آپی ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ آپی آپ ہم سے خفا ہیں نا ۔ ثمینہ رامس کے” ہم “کہنے پر چونکی۔ رامس :جی ایم کا بہت شکریہ ہے آپی۔ اس کی وجہ سے تو ہم اتنے دوست اکٹھے ہو گئے۔ ثمینہ نے کچھ سمجھنے کی کوشش کی ۔اس کی آنکھوں میں زندگی اور اعتماد کی چمک کروٹ لینے لگی ۔
رامس :آپی پلیز جواب دیں نا! رامس : آپ خاموش کیوں ہیں؟ بولیں نا پلیز ۔آپ کا فون بھی آف ہے ہم سب بہت پریشان اور نادم ہیں ۔ رامس : آپی، ماجد، رزاق، عریبہ، فیصل، عرفان، اقبال، روشنی، رمشا ہم سب دوست بن چکے ہیں ۔آپی پلیز آپ اپنا موبائل آن کریں سب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
فائزہ سب کچھ سمجھ رہی تھی۔ اس نے اس مرتبہ کن اکھیوں کی بجائے پوری گردن گھما کر ثمینہ کی جانب دیکھا۔ اسے ثمینہ بہت اپنی اپنی سی لگی۔ ثمینہ کی آنکھوں میں عجیب سی روشنی کے دیے جھلملا رہے تھے۔ زرد پڑتے چہرے پر اپنے وجود کی فتح کی سرخی دوڑنے لگی تھی۔ ثمینہ میکانکی انداز میں اٹھی اور کمپیوٹر کی طرف آئی۔ ایسے جیسے فائزہ اسے نظر ہی نہ آرہی ہو۔
فائزہ خاموشی سے کرسی سے اٹھ گئی اور اس نے نوری سے ہاتھ کے اشارے سے موبائل لاکر ثمینہ کو دینے کا کہا۔ نوری نے جھٹ موبائل لاکر ثمینہ کو دے دیا جو اب کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔ ثمینہ نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل آن کیا تو بے شمار میسیجز کی بز بجنے لگیں۔
ثمینہ نے میسیجز پڑھنے شروع کر دیے۔ ہر میسیج کے بعد اس کا چہرہ کھلتا چلا گیا۔ پھر اس نے ایک میسیج ٹائپ کیا :”فورا آن لائن آجاؤ” اور سب کو ایس ایم ایس کردیا اور موبائل ایک طرف رکھ کر اسکرین کی طرف متوجہ ہوگئی۔ رامس کے میسیجز مسلسل آئے جا رہے تھے۔ وہ خاموشی سے دیکھتی رہی اور واری اور صدقے ہوتی رہی۔کچھ ہی دیر میں پھول کھلنے شروع ہوگئے ایک ایک کر کے سارے پھول کھلتے ہی چلے گئے۔
ماجد کی طرف سے جوائینٹ کانفرنس کی انویٹیشن موصول ہوئی اس نے اتنی دیر کے بعد پہلی مرتبہ اپنے ماؤس کو حرکت دی اور اوکے کر دیا اور ہیڈ فون اپنے سر پر جما لیا۔
Headphones
پھر چٹ چٹ کھٹ کھٹ اس کے ہاتھ کی بورڈ پر چلنے لگے۔ اس کے پھول ایک چمن میں یکجا ہوگئے تھے وہ گلے شکوے بھی کرتی جا رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بھی چھلک رہے تھے۔
وہ جیت گئی تھی اس کی محبت جیت گئی تھی اور جنم جنم سے اس کے ساتھ اس کی تنہائی ہار گئی تھی۔
فائزہ کو اس دیوانی ثمینہ پر بہت پیار آیا ثمینہ فائزہ کے وجود سے یکسر بے خبر ہو چکی تھی، فائزہ خاموشی سے دروازے کی طرف چل دی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ وہ کل صبح ثمینہ کے پاس آئے گی۔ نوری کی وجہ سے اسے ایک معصوم اور بھولی بھالی بہن مل گئی تھی ۔