14اگست 1947کو اسلام کے نام پرمعرض وجود آنیوالا پاکستان خو د مسلمانوں کے ہاتھوں سنگین بحرانوں سے دو چار ہے۔ گزشتہ 65برس میں سیاست دانوں اور جاگیر داروں یہاں تک کہ معمولی سرکاری افسروں نے اس ملک کواوراس کے غریب عوام جس طر ح بیدار ی سے لوٹا ہے اس کا نتیجہ آج یہ ہی ہے کہ کسی شخص کی سمجھ میں نہیں آرہا اخر اس ملک کا بنے گا ۔ ؟
پاکستان کے سیاست دان صرف اپنی سیاست میں کرنے میں مصروف عمل ہیں اب تو ایسا لگتا ہے کہ سیاست صرف سیاست ہو کر رہ گئی ہے سیاست دان صرف اپنے مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں پاکستان کی بقاء وسلامتی اورعوام کی فکر کرنا بھول گئے ہیں سیاست دان اپنے خطاب میں باتیں تو بڑی بڑی کر تے ہیں مگر ان پر عمل کر تے نہیں دیکھائی دیتے ہیں ۔سیاست دان اپنی سیاست میں اس قدر مگن ہے کہ ان کو پتہ نہیں کے پاکستان کن کن بحرانوں سے گزر رہاہے جوکسی المیہ سے کم نہیں ۔
Altaf Hussain
پاکستان کی تیسری اور سندھ کی دوسری بڑی جماعت کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ دنوں اپنے جاری ہونیوالے بیان میں جو انکشافات کئے ہیں وہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہیں کیسی عجیب بات ہے ہمارا ملک چاروں طرف سے خطروں میں گھیرا ہواہے اور ہمیں خبر نہیں ہمارے سیاست دان خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں اور’’ نیرو ‘‘ کی طرح چین کی بانسر ی بجا رہے ہیں انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں پاکستان بھی روم کی طرح خدانخواستہ جل جائے۔ ’’ لطاف حسین نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی وبقاء پر خطرات منڈلارہے ہیں، پاکستان کا وجود، اس کی سالمیت اور خودمختاری داؤ پر لگی ہوئی ہے لیکن بدقسمتی سے اس نازک وقت میں بھی ہمارے سیاستداں ،پاکستان کی بقاء کی فکر کرنے کے بجائے اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔
الطاف حسین نے کہاکہ کل کے تمام عالمی رسائل وجرائد میں یہ خبر ہے کہ پاکستان کی سمندری حدود کے قریب بحیرہ عرب میں متعدد امریکی بحری بیڑے پہنچ چکے ہیں جن پر جدید میزائل اور توپوں سے لیس جنگی جہاز موجود ہیں۔انہوں نے عالمی رسائل وجرائد میں آنے والے دفاعی تجزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مستقبل میں خطے میں جنگ کا آغاز افغانستان سے ہوگا اور افغانستان ،پاکستان پر حملہ کرے گا جہاں نیٹو افواج پہلے ہی موجود ہیں‘‘ یہ سب حقائق الطاف حسین نے اپنے خطابات اور بیانات میں بار بار کہہ رہے ہیں مگر ان بیانات اور خطابات کو ارباب اختیار واقتدار کی جانب سے سنجیدگی سے نہیں لیا گیاجوایک افسوسناک بات ہے اور لمحہ فکریہ ہے پاکستان کی سلامتی پر خطرات منڈ رہے ہے ہیں اور ان کے کانوں پر جوئیں تک نہیں رنگتی اخر اس بات کا کیا مطلب نکلے گا ؟ ۔جب ایک سیاسی جماعت کا قائد اتنے واضح الفاظ میں کہہ ر ہا ہے پاکستان کی سلامتی اوربقاء پر خطرات منڈ لارہے تو ہم ان کی باتوں کو نظر انداز کیوں کررہے ہیں ۔
میں پاکستانی نوجوان ہونے کے ناطے اپنے ملک پر گزارنے والے ہر قسم کے حالات سے براہ راست متاثر ہو تاہوں میرا جی تو چاہتاہے کہ میں اس ملک کے خلاف اٹھنے والی ہر انگلی کو کاٹ ڈالوں اور ہر انکھ کو پھوڑ ڈالوں جو میرے ملک پر میلی نظر ڈالے۔ مگر کیا کروں میں بے کس اور لاچار ہوں کیونکہ میں بے اختیاراور بے اقتدار ہوں لیکن ایک بات میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں میں کچھ کر سکوں یا نہیں کر سکوں مگر الطا ف حسین ضرور اپنے کارکنوں سے وہ کام لیں گے جو آج تک نہ کسی وڈیرے نہ کیا اور نہ کسی صاحب اقتدار نے یقیناوہ دن قریب اس ملک پر غربیوں کی حکمرانوں ہو گی اور پاکستان حقیقت میں اسلام کا قلعہ ہو گا ۔
آج اگر ہم نے بحیثت قوم اپنا احتساب نہ کیا تو ہمیں تاریخ بھلا دیگی ضرورت اس امر کی ہے یہ نہ دیکھا جائے بلکہ اس امر پر غور کیا جائے کے کیا کہا جارہا ہے
ماضی میں الطاف حسین نے جو کچھ کہا وہ سچ ثابت ہوا اس وقت کو غنیمت جان کر ہم سب کو سر جوڑ کر سوچنا چاہیے کے قوم اس بھنور سے کیسے نکل سکے گی اس تناظر الطاف حسین کے استدلال سے مکالمے کا آغاز کیا جاسکتا ہے تاکہ ملک وقوم کو تباہی سے بچایا جاسکے۔