اسلام آباد(جیوڈیسک)چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ عدالتیں غیرجانبدارہوتی ہیں اور مک مکا نہیں کیا کرتیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ عدالتیں تحمل سے کام لیں تاکہ جمہوریت مضبوط ہو۔
توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ کر رہا ہے ۔ سماعت کے دوران جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آئین کے بہت سے الفاط توہین عدالت کے نئے قانون میں شامل نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اکڈیمک بحث میں نہیں پڑنا۔ نئے قانون کو ریاضی کے انداز میں دیکھیں گے تو مشکل ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نئے قانون کے تحت جوڈیشل پاور رکھنے والا ہر شخص یہ قانون استعمال کر سکتا ہے۔
نئے قانون میں توہین عدالت کے جرم کی تعریف کوتبدیل کر دیا گیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آرٹیکل 204 میں جج اورعدالت علیحدہ علیحدہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ عدالت میں بیٹھا ہوا جج، جج بھی ہوتا ہے اورعدالت بھی لیکن جب جج موٹروے پرگاڑی چلا رہا ہوتواس وقت صرف جج ہوتا ہے عدالت نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج اگر موٹر وے پر ازخود نوٹس لے گا تو یہ عدالتی حکم ہی ہو گا۔ عرفان قادر نے کہا کہ آئین کی زبان کو ایسے پڑھنا ہے کہ وہ قانون کی زبان سے مطابقت ثابت کرے۔ ذاتی حیثیت میں کسی کوکوئی استثنی حاصل نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ عدالتیں تحمل سے کام لیں تاکہ جمہوریت مضبوط ہو عدلیہ، مقننہ اورانتظامیہ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرملک کی ترقی کیلیے چلیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنا عدالتوں کا کام نہیں۔ عدالتیں غیر جانبدارہوتی ہیں اور مک مکا نہیں کیا کرتیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنے والی بات مثبت اندازمیں کی ہے۔ اسے منفی اندازمیں نہ لیا جائے۔ عرفان قادر نے کہا کہ گزشتہ وزیراعظم کوایسے ہی الزامات پرسزا سنائی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وہ باربارگزشتہ وزیراعظم کا تذکرہ نہ کیا کریں۔چیف جسٹس نے کہاکہ انہوں نے تواپنی سزا کے خلاف اپیل بھی نہیں کی۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزیراعظم نے اپیل نہ کرکے بالکل ٹھیک کام کیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بلوچستان میں ایک چرسی کوسزا ہوئی، اس نے سزا کاٹنے کے بعد اپیل کی تھی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون سازی کیذریعے استثنی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ اٹارنی جنرل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ نئے قانون میں استثنی دیا جاسکتا ہے۔ایسی قانون سازی سے آئین کی زبان میں تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج سہ پہرساڑھے 3 بجے سنایا جائے گا۔