سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر عدالت کے سامنے استثنی ثابت نہ کیا جاسکا تو وزیر اعظم کی نیک نیتی بھی مشکوک ہوجائے گی۔ سپریم کورٹ میں این آر او توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں عدالت کے سات رکنی بنچ نے کی۔ وزیراعظم کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم نے اس آئینی سوچ کے تحت سوئس حکام کو خط نہیں لکھا کہ صدر کو استثنی حاصل ہے۔ وزیراعظم عدالت کے فیصلوں کا خود مطالعہ نہیں کرتے بلکہ احکامات جاری کرنے کے لیے انہیں بھیجی گئی سمری پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ عدالت سیکریٹری کی سمری کو پہلے بھی غلط قرار دے چکی ہے۔ اگر کوئی ابہام تھا تو عدالت سے وجاحت کے لیے درخواست کی جاسکتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے واضح کیا کہ عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کو کسی سیکریٹری کی غلط تشریح سے مشروط نہیں کیا جاسکتا، عدالت کا اصرار ہے کہ اعتزاز احسن وزیراعم کی نیک نیتی ثابت کرنے کے لیے استثنی ثابت کریں۔ کیونکہ اس نکتے کی وضاحت کے بغیر عدالت کے لیے آگے چلنا مشکل ہوگا۔ اعتزاز احسن نے موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم کا عہدہ بھی اتنا ہی محترم ہے جتنا جج صاحبان کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت انہیں دلائل تفصیل سے پیش کرنے کا موقع فراہم کرے۔ مقدمے کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔