تین کروڑ روپے کی کھلونا گنوں کی درآمد لمحہ فکریہ

karachi firing

karachi firing

چند ماہ قبل اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر نے کم از کم مجھے تو دہلا کر رکھ دیا تھا۔جس کے مطابق اس سال 2011 میںعید الفطر کے موقعے پر ہمارے اِمپورٹرز نے تین کروڑ روپے کی پلاسٹک کی کھلونا گنیں در آمد کیںجس میں ہر نوع کی اور ہر ملک کی ساختہ گنیں شامل ہیں، جو لمحہء فکر یہ ہے !!! کیا ہم اپنی قوم کے نو نہالوں اور نا سمجھ بچوںکو گنیں تھما ٹارگیٹ کلرکرِمنل یا بھتہ خور تواَن جانے میں نہیں بنانے جا رہے ہیں؟؟ اس اندز سے ہم اپنے نو نہالوں کی تربیت کر رہے ہیں ؟کہ ہر ایک کے ہاتھ میں ایک کھلونا گن دیکھی جا رہی ہے۔جس کے ذریعے وہ جو ایکشن دکھا رہے ہیں وہ انتہائی خطر ناک معلوم ہوتے ہیں۔جو ہمارے معاشرے کے مستقبل کے ماحول کی غمازی بھی کر رہے ہیں۔ہم کھلونا بندوقیں بچوں کے ہاتھوں میں دے کر شائد فخر محسوس کرتے ہیں اور بچہ بھی خوشی سے پھولے نہیں سماتا ہے کہ اُس کے ولد والد ہ یا بڑے بھائی نے اُسے نایاب نعمت سے نواز دیا ہے۔مگر ہمارے معاشرے کے تمام ہی لوگ اس حرکت کے ما بعد اثرات سے شائد نا بلد ہیں ورنہ وہ اپنے نو نہال سے اَن جانے میں یہ دشمنی ہر گز نہ کرتے۔
کراچی جیسے عروس البلاد شہر میں حکومت کو اعلیٰ عدالت کی تنبہہ کے باوجود آج بھی اوسطاََ 5 افرد کو روزانہ ٹاگیٹ کر کے قتل کر دیا جاتا ہے اور کوئی ایک بھی قاتل قانون کی گرفت میںمشکل سے ہی آتا ہے۔اس قتل و غارت گری میں سیاست مافیہ ، لینڈ مافیہ اور ڈرگ مافیہ سب ہی کے لوگ شامل ہیں۔جن کو کوئی پوچھنے اور پکڑنے کی جر اء ت کر ہی نہیں سکتا ہے۔کیونکہ ان کے حامی اور مدد گار وں میں ہمارے سیاست دان اور لینڈ مافیہ اور ڈرگ مافیہ کے لوگ سب سے آگے دیکھے جا سکتے ہیں!!!سیاست کے میدانوں میں اور سماج کے ٹھیکیداروں میں ہر جا نب سے گن کلچر کو شدو مد سے پروموٹ کیا جا رہا ہے۔اس ضمن میں جمیعت العلماء اسلام کے سر براہ مولانا فضُل الرحمان نے مطالبہ کیا تھا کہ ذوالفقار مرزا کے انکشافات اور بیانات کا حکومت سنجید گی سے نوٹس لے !!! ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ معاملات خراب ہو رہے ہیں۔ مصلحت کے نام پر ریاست سے منافقت ختم نہ کی گئی تو بہت کچھ ختم ہو سکتا ہے۔ مولانا واضح الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ ملک کا آج کا سیاسی کلچر بھی بندوق کی نوک پر چل رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میںوزیر داخلہ رحما ملک نے 18نومبر2011کو پاکستان کی قومی اسمبل کو بتایا تھا کہ دوسالوں2010 اور 2011کے دوران کراچی میں3938 افراد کو اسلحہ کے زور پر قتل کر دیا گیا تھا۔جن میں سے ٹارگیٹیڈ کلنگ میں اُن کے مطابق 830 افراد قتل کئے گئے۔اس قتل و غارت گری کے ضمن میں صرف 365مقدمات کا چالان پیش کیا گیا۔اور 230 ٹارگیٹ کلر کو پولیس نے حراست میں لیامگر یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ تمام ہی واقعی ٹارگیت کلر تھے یا ا ن کی اکثریت کو زبر دستی پھنسایا گیا ہے۔یہ وہ واقعات ہیں جن کے مقدمات درج ہو چکے ہیں۔اس کے بر عکس انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں کئی مقدمات تو درج ہی نہیں ہوتے ہیں۔
اب آئے اسٹریٹ کرائم کی طرف یہ گن کلچر کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہر گلی ہر بازار اور ہر محلے میں اسٹریٹ کرائم اس قدر زیادہ ہو رہے ہیں کہ شہریوں کی زندگی اجیرن بن کے رہ گئی ہے اور یہ سب کچھ اسٹریٹ کرائمز رینجرز اور پولیس کی موجودگی میں ہو رہے ہیں مگر مجال ہے کہ ان کریمنلز کو پولیس ہاتھ لگاتی ہو۔عام شہری روزانہ سینکڑوں موبائل فونز سے ہاتھ دھوکر اداس اداس اپے گھروں کو لوٹتے ہیں ۔جو ذراہمت کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ ہی خون میں نہا کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔اب جس دن رینجرز کو مزید تین ماہ کی توسیع دی گئی اُسی دن سے شہر میں اسٹریٹ کرائم کی گنتی آسمان کو چھو رہی ہے۔
دو تین دنوں کے دوران کئی بینکوں کو حتیٰ کہ بینک کا پیسہ لیکر جانیوالی گاڑی تک کو پہلے ٹکر مار کر حادثے کی شکل دی گئی اور پھر آسانی سے اُس میں سے بینکوں کا کروڑوں روپیہ چلتے ہوے روڈ پر گن پوئنٹ پر کریمنل لوگوں کے ہجوم میں لوٹ کر فرار ہوگئے۔ اور ہمارے ادارے دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ اب ان گن برداروں نے گاڑیاں چھننے کا بھی یہی اسٹائل اپنایا ہوا ہے۔ کریمنلز کسی نسبتاََ سونے روڈ پر جب کوئی بہتر یا نئی گاڑی دیکھتے ہیں وہ تیزی سے اُس گاڑی کو ہٹ کرتے ہیں جیسے ہی گاڑی چلانے والاگاڑی سے اترتا توگن بردار گن پوئنٹ پر اُس سے چابی لیکر یہ جا! اور وہ جا!!!ہے کسی مائی کے لال میں ہمت تو اُنہیں پکڑ کر دکھائے…ٹارگیٹ کلنگ لوٹ مار اور کاراسنیچنگ میں ہر سیاسی جماعت اور کئی مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے لوگ شامل بتائے جاتے ہیں۔ مگر انہیںپکڑنا کسی کے لئے بھی آسان اس لئے نہیں ہے کہ ان لوگوں کے ہاتھ ایوانوں تک پہنچے ہوے ہیں۔پولیس اور دیگر اداروں میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی نمائندگی ٹھیک ٹھاک ہے۔یہ لوگ اپنے اپنے گروہوں کو اپنی لوٹ کھسوٹ میں سے مناسب حصہ دیتے ہیں۔مگر بد قسمتی یہ ہے کہ انہیں کوئی own نہیں کرتا ہے۔ ہر گروپ ان کی مذمت میں تو رطب السان رہتا ہے مگر عملی طور پر کچھ کرنے کو ہر گز تیار نہیں ہے اور نہ ہی ان دہشت گردوں کو دہشت گردی سے روکنے کو تیار ہے۔اگر اسلحہ کی دوڑ اور اس کا استعمال اسی طرح جاری رہا تو ہم رہے سہے معمولی وقار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
حکمرانوں سے بار بار کی اپیلیںبے سود دکھائی دیتی ہیں۔کیونکہ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ قوم کو خوف اور دہشت کے ماحول میں رکھا جائے تاکہ کوئی ان سے ان کے اقتدار اور اس میں ہونے والے جرائم کا حساب نہ لے سکے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ کلاشن کوف کلچر کو روکنے کیلئے حکومت فول پورف انتظامات کرتی اور ہر قسم کی کھلونا گن کی درآمد پر سختی سے پابندی لگا دیتی ۔تاکہ ہمارے معصوم اذہان گنوں اور ان کے استعمال سے متنفر ہوتے۔مگربد قسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
جان بوجھ کر قوم کے بچوں کے ہاتھوں میں کھلونوں کی شکل میں گنیں تھمائی جا رہی ہیں جو معصوموں کے کچے ذہنوں پر اَنمٹ نقوش ثبت کر رہی ہیں۔جس سے آنے والے دنوں میں گن بردار نوجوانوں کی پرورش کر ارہی ہے ۔جو اس اسلامی ملک کے معاشرے کو غیر اخلاقی اور غیر اسلامی بنانے کے واضح ثبوت ہے۔ہم اپنے نو نہالوں کو کیا سبق دے رہے ہیں کبھی حکمرانوں نے یہ سوچ؟؟؟اگر ہمارے حکمرانوں نے اس طرف ذرا بھی توجہ دی ہوتی تو ایک ایک وقت میں تیں تین کروڑکی کھلونا گنی ڈرآمد نہ کیا جاتیں۔حکمرانوں خدا کے قہر سے ڈرو!!!تم اپنے بچوں کو یورپ کے مہذب معاشروں میںتعلیم و تربیت دلا رہے ہو اور قوم کے بچوں کا اس طرح مستقبل برباد کر رہے!!!شرم کو١شرم کرو! شرم کرو۔تحریر : پروفیسرڈاکٹر شبیر احمد خورشید[email protected]