وہ آج بھی گھر میں بے حال اپنی سوچوں میں مگن بیٹھی تھی کہ اس کا چھوٹا بیٹا بھوک سے بلکتا ہوا اس کے ڈوپٹہ کا پلو کھینچ رہا تھا۔ جس کی زرد آنکھوں میں دور دور تک فاقوں کی کھائیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔اس نے ایک دفعہ نظر اٹھا کر دیکھا اس کے تینوں بچے قطار بنائے اپنی ماں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رے تھے۔ اس نے بے بسی سے ان کی طرف دیکھا دو دن سے بھوکے بچے ، زرد چہرے جن سے بھوک کی پیلاہٹ واضح تھی اور پیٹ سے لگی انتڑیاں بھی فاقوں کے قصے سنا رہی تھی۔
آنکھوں میں رچی بھوک دل دہلا رہی تھی اس پوری بستی میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو ان بچوں کی بھو مٹا سکتا ان للچائی آنکھوں میں امید بھر سکتا۔ کوئی ایک تو ہوتا جو اس بھوک سے شکست خوردہ گھر کے لیے چراغ امید بن کر ان نیلی آنکھوں کو خوشیوں سے بھر سکتا۔ جگر کے گوشوں کو بھو ک سے بلکے دیکھ کر اس کی اپنی آنکھیں پتھرا گئی تھی شاید بھوک خالی پیٹ کو آنسو بہانے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ بھوک سے بلکتے بچے چند لمحوں میں گویا یوں چپ ہوگئے جیسے تا قیامت انہیں اب کبھی بھوک تنگ نہیں کرے گی۔ممتا کے ہاتھوں مجبور اور بے بس عورت کیسی بے بسی سے اٹھی ہو گی نجانے کیسے چھری تیز کر کے اپنا جلا خون اس پر گری کر دھار تیز کی ہو گی۔
نجانے کتنے پتھر دل پر رکھ کے اپنے بچوں کی موت کا فیصلہ صادر کیا ہوگا۔ محرومیاں جب حد سے بڑھنے لگے تو احساس بے دردی کا پیراہن اوڑھ کر جابریت کی مثال بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ نجانے اسے ماں سے مٹی کا ڈھیر بنتے اور لڑکھڑاتے اپنی منزل تک پہنچنے میںکتنی صدیاں لگی ہو گی۔ کیسے باری باری اپنے جگر گوشوں کوروٹی کا لالچ دے کر اندھیر کمرے میں بلا کے اوندھے منہ گرا کر گلوں پے چھری پھیری ہوگی۔ گرم چھری کا لمس بھوکے بچوں کو کیسا لگا ہوگا۔
inflation
نجانے اس چھری پے لگے خون نے کیسے عورت کو جنجھوڑ کر پھر سے ماں بنا کر ماتم پے مجبور کیا ہوگا۔ کسی پولیس والے نے گرجدار آواز میں اسے مجرم قرار دیتے ہوئے ممتا سے گرا کر اپنا اندھا قانون سچ ثابت کر دیا ہو گا۔ کیسے بستی کے لوگوں نے اسے ماں سے ڈائن کا لقب دیا ہو گا۔مگر جو تنہا خالی پتھر آنکھیں لئے اپنے بچوں کو بھوک مٹا چکی تھی وہ کس قدر آسودہ ہو چکی تھی اسے کتنا یقین تھا کہ اب تا قیامت اس کے بچے بھوکے نہیں رہیں گے۔
کیسے میدان کربلا فتح کر کے بھوک کی راہ میں اپنے لخت جگروں کو شہید ہوتے دیکھا ہوگا کتنا صبر ہے اس ماں میں جس کا ہستا بستا گھر فاقوں کی نظر ہو گیا۔ کسی کا کچھ نہیں گیا نہ فرد واحد کا نہ معاشرے کا نہ اندھے قانون کا، لیکن ایک ماں نے اپنی گود بھوک کی بھینٹ چڑھا دی کیونکہ نا تو قانون پیٹ بھرتا ہے نا ظالم سماج اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک گھر کے کھانوں سے اٹھنے والی خوشبو کسی غریب ماں کو چھری چلانے پے مجبور کرتی ہے۔
بزرگ کہتے ہیں جہاں ظلم ہو وہاں اللہ کا قہر برستا ہے پھر وہاں کیوں کوئی قہر نہیں برسا نہ زمین پھٹی نہ آسمان رویا مگر یہ بھی سچ ہے جہاں بے حسی ہو وہاں کسی اور قہر کی ضرورت نہیں رہتی۔تحریر: سحرش منیر
سو گئے بچے ایک غریب ماں کے جلدی جلدی ماں بولی تھی،فرشتے آتے ہیں خواب میں روٹی لے کر