سپریم کورٹ(جیوڈیسک)ججز تقرری کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فریقین سے چار سوالوں کے جواب مانگ لیے۔ سپریم کورٹ نے جسٹس انور کاسی اور جسٹس ریاض کے درمیان سینیارٹی کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔
ججز تعیناتی کیس کی سماعت جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ انہیں چار سوالوں کے جواب دیے جائیں۔ کیا جوڈیشل کمیشن کی تشکیل آئینی تھی۔ کمیشن غیر آئینی تھا تو اس کے فیصلوں کی حیثیت کیا ہو گی۔ کمیشن کی کارروائی کے بعد صدر کو مسترد کرنے یا منظوری کا اختیار ہے یا نہیں اور یہ کہ معاملے کا آئینی حل نہیں تو کیا کوئی اور حل موجود ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا آپ نے یہ سوالات دے کر کیس کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ کیس ان ہی سوالات کے گرد گھومتا ہے۔ وہ حکومت کی تحریری ہدایت کے بغیر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا ان کی اطلاع کے مطابق بائیس اکتوبر کو جسٹس ریاض حج پر تھے۔
سینیارٹی لسٹ کے مطابق جسٹس انور کاسی سینئیر ترین جج تھے اور وہی کمیشن میں شامل ہوئے۔ عدالت نے اس موقع پر رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو معاملے کی تصدیق کرنے کی ہدایت کی۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسی بات تھی تو شاید صدر کو نہیں بتائی گئی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ صدر کو اگر پتا چلے کہ اس عمل میں کوئی بنیادی غلطی رہ گئی ہے تو کیا ان کے پاس کسی نشاندہی کا اختیار ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کے بعد ججوں کی تقرری کے معاملے میں صدر کے پاس کوئی اختیار نہیں رہا۔ صدر اس معاملے میں وزیراعظم سے بھی ایڈوائس نہیں لے سکتا۔ عدالت نے جسٹس انور کاسی اور جسٹس ریاض کے درمیان سینیارٹی کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔