قاہرہ کے بہت سے دوسرے گھرانوں کی طرح نادیہ، سوہیر اور احمد نے جرائم کی طرف کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی ۔ لیکن اس سال، کسی معمولی سی بات پر بھی انھیں سخت تشویش ہو جاتی ہے۔
نادیہ سیاحت کی صنعت میں کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’انقلاب کے بعد، ملک میں سلامتی اور تحفظ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے ۔ وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح گزشتہ ماہ، ان کے ایک رشتے دار پر جو شہر میں گاڑی چلا رہے تھے ، مشین گنوں سے مسلح نقاب پوشوں نے گھات لگا کر حملہ کیا۔ ان کی جان تو بچ گئی لیکن ان کی کار اور جو کچھ ان کے پاس تھا،چھین لیا گیا۔ نادیہ کہتی ہیں کہ مصر میں یہ نئے قسم کے جرم ہیں، اور ان میں اغوا کی وارداتیں شامل ہیں۔ اب تشدد زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔‘‘
ان کی بہن سوہیر ان سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق سوہیر جو خاتونِ خانہ ہیں کہتی ہیں کہ انہیں گھروں میں ڈاکوؤں کی فکر ہے ۔ وہ قاہرہ کی ایک مہنگی بستی میں رہتی ہیں اور وہ اپنے گھر میں ایک مضبوط آہنی دروازہ لگوا رہی ہیں۔
لیکن سوہیر کو اصل فکر اپنے بیٹے، احمد کی ہے جو میکینیکل انجینیئر ہے اور اپنے کام کے سلسلے میں اکثر باہر جاتا رہتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ اسے الجھن ہوتی ہے، لیکن وہ جب سڑک پر ہوتا ہے تو وہ اکثر اس کو فون کرتی ہیں اور اس کی خیریت معلوم کرتی رہتی ہیں۔
مصر میں جرائم کی صورت حال اتنی تشویشناک ہے کہ فوجی حکمراں، فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی نے اس ہفتے اسے ملک کے انتہائی متنازعہ ایمرجینسی قانون کو دوبارہ نافذ کرنے کے جواز کے طور پر استعمال کیا۔ انھوں نے کہا کہ بیویوں کو سڑکوں پر سے ان کے شوہروں کی آنکھوں کے سامنے اغواء کیا جا رہا ہے ۔
لیکن جرائم میں یہ اضافہ کتنا سنگین ہے؟ ریسرچ کرنے والے گروپ ابو ظہبی گیلپ کے مطابق، کوئی خاص نہیں۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ اگرچہ انقلاب کے بعد مصر میں جرائم کے بارے میں خوف میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، لیکن اصل جرائم کی تعداد جن کے بارے میں رپورٹ کی گئی ہے، کم وبیش اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی۔
تو اصل صورتِ حال کیا ہے؟ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں عمرانیات کے ماہر سعید صادق کا خیال ہے کہ مصر پہلے کے مقابلے میں کم محفوظ ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جب کبھی کوئی انقلاب آتا ہے تو سکیورٹی کا نظام برباد ہو جاتا ہے۔ مرکزی حکومت کمزور ہو جاتی ہے۔ معیشت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ لہٰذا انقلاب کے بعد، کچھ عرصے تک عدم استحکام اور سکیورٹی کے مسائل پیدا ہونا قدرتی بات ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بہت زیادہ مبالغے سے کام لیا جا رہا ہے۔‘‘
صادق اس کے لیے بڑی حد تک میڈیا کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ سنسنی خیز خبروں سے نا صرف میڈیا کی مارکیٹ بہتر ہوسکتی ہے بلکہ اس طرح سیاسی ایجنڈے کے مقاصد میں بھی مدد ملتی ہے۔ میڈیا میں اب بھی بہت سے لوگوں کے پرانی حکومت کے ساتھ رابطے ہیں، اور یہ لوگ کسی بھی شکل میں عدم استحکام کو نمایاں کر سکیں، اتنا ہی یہ انقلابیوں کے پیغام کو غیر موئثر کر سکتے ہیں۔
پھر یہ سوال بھی ہے کہ انقلاب سے پہلے کتنے جرائم ہوتے تھے۔ صادق کہتے ہیں کہ سابق لیڈروں کی سخت کوشش ہوتی تھی کہ ایسے اعداد و شمار چھپائے جائیں جن سے ملک کا تاثر خراب ہو۔ لیکن عام خیال یہی تھا کہ قاہرہ دوسرے بڑے شہروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ محفوظ ہے کیوں کہ سکیورٹی فوج کے ہاتھ میں تھی۔
پھر یہ سوال بھی ہے کہ مصر میں پولیس کا رول کیا ہے۔ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر صادق کہتے ہیں کہ’’یہ نہ بھولیے کہ ایک طویل عرصے تک ہماری پولیس کی کارکردگی صرف سیاسی معاملات تک محدود تھی۔ لیکن جہاں تک عام جرائم کا تعلق ہے، پولیس کی کارکردگی اچھی نہیں تھی، اور پولیس کی مدد لینے کے لیے، ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے، رشوت دینی پڑتی تھی۔‘‘
سوہیر کے بیٹے احمد، جن کے بارے میں وہ اتنی پریشان رہتی ہیں کہتے ہیں کہ پولیس کے رویے کی وجہ سے، ماضی میں بھی اور اب بھی، لوگ بہت کم جرائم کی رپورٹیں پولیس کو کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’’لوگ جانتے ہیں کہ اب سکیورٹی فورس نہیں ہے، اور اگر وہ کسی جرم کی رپورٹ کریں گے، تو پھر بھی جرم کا پتہ چلانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا وہ رپورٹ کرنے کا سر درد کیوں مول لیں۔ لوگ اپنی حفاظت کے لیے دوسرے طریقے اختیار کر رہے ہیں، یعنی خود اپنی حفاظت کا بندو بست کر رہے ہیں۔‘‘
احمد کے لیے اس کا مطلب ہے گن اپنے پاس رکھنے کے لیے لائسنس حاصل کرنا۔
قاہرہ کے بہت سے دوسرے گھرانوں کی طرح نادیہ، سوہیر اور احمد نے جرائم کی طرف کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی ۔ لیکن اس سال، کسی معمولی سی بات پر بھی انھیں سخت تشویش ہو جاتی ہے۔
نادیہ سیاحت کی صنعت میں کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’انقلاب کے بعد، ملک میں سلامتی اور تحفظ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے ۔ وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح گزشتہ ماہ، ان کے ایک رشتے دار پر جو شہر میں گاڑی چلا رہے تھے ، مشین گنوں سے مسلح نقاب پوشوں نے گھات لگا کر حملہ کیا۔ ان کی جان تو بچ گئی لیکن ان کی کار اور جو کچھ ان کے پاس تھا،چھین لیا گیا۔ نادیہ کہتی ہیں کہ مصر میں یہ نئے قسم کے جرم ہیں، اور ان میں اغوا کی وارداتیں شامل ہیں۔ اب تشدد زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔‘‘
ان کی بہن سوہیر ان سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق سوہیر جو خاتونِ خانہ ہیں کہتی ہیں کہ انہیں گھروں میں ڈاکوؤں کی فکر ہے ۔ وہ قاہرہ کی ایک مہنگی بستی میں رہتی ہیں اور وہ اپنے گھر میں ایک مضبوط آہنی دروازہ لگوا رہی ہیں۔
لیکن سوہیر کو اصل فکر اپنے بیٹے، احمد کی ہے جو میکینیکل انجینیئر ہے اور اپنے کام کے سلسلے میں اکثر باہر جاتا رہتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ اسے الجھن ہوتی ہے، لیکن وہ جب سڑک پر ہوتا ہے تو وہ اکثر اس کو فون کرتی ہیں اور اس کی خیریت معلوم کرتی رہتی ہیں۔
مصر میں جرائم کی صورت حال اتنی تشویشناک ہے کہ فوجی حکمراں، فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی نے اس ہفتے اسے ملک کے انتہائی متنازعہ ایمرجینسی قانون کو دوبارہ نافذ کرنے کے جواز کے طور پر استعمال کیا۔ انھوں نے کہا کہ بیویوں کو سڑکوں پر سے ان کے شوہروں کی آنکھوں کے سامنے اغواء کیا جا رہا ہے ۔
لیکن جرائم میں یہ اضافہ کتنا سنگین ہے؟ ریسرچ کرنے والے گروپ ابو ظہبی گیلپ کے مطابق، کوئی خاص نہیں۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ اگرچہ انقلاب کے بعد مصر میں جرائم کے بارے میں خوف میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، لیکن اصل جرائم کی تعداد جن کے بارے میں رپورٹ کی گئی ہے، کم وبیش اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی۔
تو اصل صورتِ حال کیا ہے؟ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں عمرانیات کے ماہر سعید صادق کا خیال ہے کہ مصر پہلے کے مقابلے میں کم محفوظ ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جب کبھی کوئی انقلاب آتا ہے تو سکیورٹی کا نظام برباد ہو جاتا ہے۔ مرکزی حکومت کمزور ہو جاتی ہے۔ معیشت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ لہٰذا انقلاب کے بعد، کچھ عرصے تک عدم استحکام اور سکیورٹی کے مسائل پیدا ہونا قدرتی بات ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بہت زیادہ مبالغے سے کام لیا جا رہا ہے۔‘‘
صادق اس کے لیے بڑی حد تک میڈیا کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ سنسنی خیز خبروں سے نا صرف میڈیا کی مارکیٹ بہتر ہوسکتی ہے بلکہ اس طرح سیاسی ایجنڈے کے مقاصد میں بھی مدد ملتی ہے۔ میڈیا میں اب بھی بہت سے لوگوں کے پرانی حکومت کے ساتھ رابطے ہیں، اور یہ لوگ کسی بھی شکل میں عدم استحکام کو نمایاں کر سکیں، اتنا ہی یہ انقلابیوں کے پیغام کو غیر موئثر کر سکتے ہیں۔
پھر یہ سوال بھی ہے کہ انقلاب سے پہلے کتنے جرائم ہوتے تھے۔ صادق کہتے ہیں کہ سابق لیڈروں کی سخت کوشش ہوتی تھی کہ ایسے اعداد و شمار چھپائے جائیں جن سے ملک کا تاثر خراب ہو۔ لیکن عام خیال یہی تھا کہ قاہرہ دوسرے بڑے شہروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ محفوظ ہے کیوں کہ سکیورٹی فوج کے ہاتھ میں تھی۔
پھر یہ سوال بھی ہے کہ مصر میں پولیس کا رول کیا ہے۔ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر صادق کہتے ہیں کہ’’یہ نہ بھولیے کہ ایک طویل عرصے تک ہماری پولیس کی کارکردگی صرف سیاسی معاملات تک محدود تھی۔ لیکن جہاں تک عام جرائم کا تعلق ہے، پولیس کی کارکردگی اچھی نہیں تھی، اور پولیس کی مدد لینے کے لیے، ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے، رشوت دینی پڑتی تھی۔‘‘
سوہیر کے بیٹے احمد، جن کے بارے میں وہ اتنی پریشان رہتی ہیں کہتے ہیں کہ پولیس کے رویے کی وجہ سے، ماضی میں بھی اور اب بھی، لوگ بہت کم جرائم کی رپورٹیں پولیس کو کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’’لوگ جانتے ہیں کہ اب سکیورٹی فورس نہیں ہے، اور اگر وہ کسی جرم کی رپورٹ کریں گے، تو پھر بھی جرم کا پتہ چلانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا وہ رپورٹ کرنے کا سر درد کیوں مول لیں۔ لوگ اپنی حفاظت کے لیے دوسرے طریقے اختیار کر رہے ہیں، یعنی خود اپنی حفاظت کا بندو بست کر رہے ہیں۔‘‘
احمد کے لیے اس کا مطلب ہے گن اپنے پاس رکھنے کے لیے لائسنس حاصل کرنا۔