ادیان کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے ہم جمہوری ملک بھی کہتے ہیں ،میں آج کل جرائم کی شرح سو فیصد ہے۔ اور یہ سب کچھ بغیر کسی کے توسط اور آشیرباد کے ممکن تو نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کُلّی طور پر سیاسی پنڈتوں کے آشیر باد اور محکموں کی مہربانی سے ملک جرائم نگری میں اس حد تک تبدیل ہو گئی ہے کہ یہاں دن دہاڑے بھیڑ بھاڑ والی سڑکوں پر شریفوں کو لوٹا جانے لگا ہے، یہاں تک کہ اغوا ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں یہ کاروبار کوئی انڈسٹری یا کوئی محکمہ وزارعت میں تبدیل نہ ہو جائے۔
آئے دن اغوا اور رقم نہ ملنے پر لاشوں کے انبار ، اکثر عصمت دری کی خبریں بھی میڈیا پر چلا کرتی ہیں ۔ ایسے لوگوں نے شہر کی خوبصورت اور دلکش سڑکوں پر جرائم کرنے کا کھنائونا جرم جاری رکھا ہوا ہے ۔ جب ایسے ایسے جرائم ملک میں ہونگے تو میڈیا کو یقینا گرما گرم خبر میسر آئیں گی اور روزآنہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ میڈیا ایسے واقعات کو بنیاد بنا کر لے اُڑتا ہے اور اس کے مختلف پہلوئوں پر بحث و مباحثہ شروع کر دیا جاتا ہے جس سے عوام الناس میں اور خوف کے سایے منڈلانے لگتے ہیں۔ ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن خاموشی کے سبھی تیور ہیں سدائوں والے! آج ملک میں یہ حال ہے کہ لوگ رات تو دور دِن کو بھی گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں،(گو کہ تمام معاملاتِ دنیا اُسی طرح کئے جا رہے ہیں مگر ڈر اور خوف کے سائے میں)ڈاکے، قتل، چوریاں ،ہنگامے ، بلوے، فائرنگ، گاڑیوں کا جلانا ، توڑ پھوڑ یہ سب کچھ ہمارے روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکاہے، ہنگامے کی وجہ چاہے کوئی بھی ہو بربادی اور نقصان صرف عوام کی ہورہی ہے۔( آج تو یہ حال ہے کہ وزیر کی گاڑی اور موبائل بھی دن کی روشنی میں چھین لی جاتی ہے ،تو ایک ادنیٰ فرد جو سماج کا حصہ ہے وہ اپنے کیسے محفوظ ہو سکتا ہے)۔
پرانے وقتوں میں ہمارے ملک پر امن و شانتی ، ملنساری، بھائی چارگی، دوستی، مرّوت، اور اس جیسی تمام خوبیوںکا راج ہوا کرتا تھا مگر حالیہ چند سالوں سے پتا نہیں ملک کو کس کی نظر لگ کئی ہے ہمارے یہاں یہ تمام جزیات ناپید ہیں اور ان کی جگہ چور’ ڈاکو ‘ قاتل ‘ قبضہ گروپ ‘ منشیات فروش ‘ رشوت خور ‘ جواء و سٹے باز ‘ جیسے عناصر نے سنبھال لیا ہے جس کی وجہ سے عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عناصر ملک کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے اور اپنے کرتا دھرتائوں کے کہنے پر وہ سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں جس سے ملک Destabilize ہو ۔ ویسے تو عوام محلے اور علاقوں کی سطح ان کے خلاف بہت کچھ کر سکتے ہیں جیسے کہ پریشر گروپ بنا کر ان کی بیج کنی کرنے کی کوشش، پولیس کی مدد، عدالتوں کی مدد مگر انہیں ڈر اور خوف گولیوں کاہوتا ہے جو کسی کا دوست نہیں۔
اب تو یہ عالم ہے کہ اندھی گولیاں بھی آ رہی ہیں جو گھر کے صحن یا چھت پر سوئے ہوئے بے قصور لوگوں کو میٹھی نیند سلا دیتی ہے تو نشانے باز گولیوں کا کیا ذکر۔(گو کہ عوام بھی ان عناصر کی بیج کنی میں ناکام ہیں اس لئے قصور وار تو عوام بھی ہیں) مگر اصل محرکات ہی یہ ہے کہ عوام اپنی اور اپنے احباب پر کسی قسم کا کھڑونچ نہیں آنے دینا چاہتے اس لئے ان جرائم پیشہ اور دیگر طبقہ کے خلاف کچھ نہیں کیا جاتا۔ مگر یہ سب کچھ حکومت کی اوّلین ذمہ داریوں میں سے ہے کہ عوام کو مکمل سُکھ اور چین کی زندگی فراہم کرے۔
برسرِ اقتدار اور اپوزیشن کے ممبران میں آئے دن ان تمام موضوعات پر زبردست نوک جھونک دیکھنے کو ملتا رہتا ہے ، جو کئی بار تو ایسا لگتا ہے کہ اب گتھم گتھا اور دھکا مکی تک پہنچنے والے ہیں ، اور یہ سب میڈیا پر دیکھ کر سوائے دُکھ اور ہنسی کے کچھ بھی نہیں بن پاتا کہ عوام کیا کرے۔ان کی ان حرکات کو کیا کہیںسب کچھ آپ کے سامنے ہی ہے۔ملک کا دارالخلافہ بھی اب جرائم نگر والوں سے محفوظ نہیں لگتا ۔ جرائم کے کئی طریقے رائج ہیں جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے مگر ایسے جرائم بھی ہمارے ملک میں پروان چڑھ رہے ہیں جو بظاہر جرم نہیں لگتا مگر حقیقت میں یہ بھی جرم کی ایک شکل ہے۔ گداگروں کے متعلق بھی ابھی حال ہی میں میڈیا پر ایک پروگرام نشر ہو چکا ہے اور ویسے بھی ہم اور آپ روزآنہ ہی ملک کے طول و عرض کی سڑکوں پر آتے جاتے رہتے ہیں اور گداگروں کی حرکات و سکنات کو دیکھا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ گدا گروں نے اپنے اپنے علاقے بنائے ہوئے ہیں، سگنلز خریدے جاتے ہیں، چوراہوں پر ٹھیکیداری نظام ہے، اور اسی طرح کی کئی اور خامیاں بھی ان گداگروں میں پروان چڑھ رہی ہے کیا یہ جرم کی ایک شکل نہیں، اس پر بھی ہمارے اداروں کو فوری کاروائی کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ یہ شکل بھی جڑ پکڑ لے۔
Media Newspaper
مگر ساتھ ہی یہ بات بھی اخباروں اور میڈیا پر گردش میں رہتی ہے کہ ان کی بیج کنی کرے گا کون ؟ کیونکہ یہ تو خود ہی ہر چوراہے سے ہفتہ وصولی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک مونگ پھلی فروش یا ایک پھل فروش کے ٹھیلے سے مفت میں مٹھی بھر کر پھلی اٹھا لینا ، یا کچھ فروٹ اٹھا لینا اور ہوٹلوں پر مفت میں کھانا کھا لینا ہی انہوں نے اپنا وطیرہ بنا یا ہوا ہے ۔ راوی کے نظر میں سب سے پہلے ایسے معاملات کا قلع قمع کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرے میں بہتری اور سُدھار کا راج نافذ ہو جائے۔شاعروں سے بہت معذرت کے ساتھ: اس طرح اندھیروں میں کمی آئے گی کیسے؟ جو دیپ جلاتا ہوں بجھا دیتی ہے دنیا! سچ بات جو کہتا ہے اس احد میں ائے دوست اُس شخص کو سُولی پہ چڑھا دیتی ہے دنیا! ویسے تو ہمارے وطنِ عزیز میں جرائم ہر کوئی کرتا نظر آتا ہے ۔جیسا کہ آج کل عدالتوں سے فیصلے آنا شروع ہوگئے ہیں جن میں ملکی پیسہ لوٹنے کے بعد بیرون ملک منتقل کرنا، اصغر خان کیس کی نسبت سے سیاسی طور پر پیسوں کی بندر بانٹ کی قلعی بھی کھل چکی ہے، یہ تمام معاملات بھی جرائم میں ہی شامل ہیں بلکہ یہ تو جرائمِ خاص ہیں جس سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ویسے بھی ہمارے یہاں چمچہ گیری، چاپلوسی، اور مسکے بازی حدوں کی چُھو رہی ہے خدا بہتر جانتا ہے کہ ایسے لوگوں کا کیا ہوگا، ایسے لوگ کب اپنا بدنما چہرہ آئینے میں دیکھیں گے اور کب انہیں ہوش آئے گا کہ اب بَس کر دیا جائے اور وطنِ عزیز کی بہتری کیلئے بھی کچھ سوچا جائے۔
واللہ اعل کوئی شخص اگر یہ کہہ دے کہ بدترین جمہوریت سے بہتر آمریت ہے تو بھی دشمنی کی زد میں آتا ہے اور اگر یہ کہہ دے کہ حکومت ملک کو کرپشن کی طرف ڈھکیل رہی ہے تو جمہوریت دشمنی کی زد میں آتا ہے ۔ مطلب لوگ جائیں تو جائیں کہاں! بریکنگ نیوز بنا کر پیش کر دینا ہی مسئلے کا حل نہیں ہوتا، کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف تجزیاتی رپورٹ پیش کر دینے سے ذمہ داری کم نہیں ہوا کرتی ، تقاضۂ وقت ہے کہ تمام جرائم پرچاہے وہ جس قسم کا بھی ہو اس کی بیج کنی کرنے کیلئے مربوط نظام وضع کیا جائے۔ شیطانیت کا مکمل پوسٹ مارٹم کیا جائے، چور کی داڑھی سے تِنکا نکال پھینکا جائے ، تاکہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو جائے۔ اور عوام کو خوشحالی، سُکھ چین میسر آ سکے۔