جرمنی (طاھر ملک) دنیا بھر میں عبادت اور سیاست کی طرح ادب بھی اب ایک تجارت بن چکا ہے جس میں ایسے ایسے لوگ شامل ہیں جنہیں یوں تو شاید ادب سے کوئی دلچسپی نہ ہو لیکن تعلقات عامہ کے زور پر اور مختلف حلقوں سے حاصل کردہ فنڈز کے زور پر متعدد تنظیمیں مشاعروں اور نام نہاد ایوارڈز تقسیم کرنے کی تقریبات کرتی ہیں جو اب ایک مزاق بن چکا ہے اور ایوارڈ والوں کے ساتھ ساتھ ایوارڈ لینے والے بھی اصلیت جاننے کے باوجود ایسے نام نہاد ایوارڈوں کو اپنے لیئے اعزاز سمجھتے ہیں۔
جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ حکومت سے مالی امداد لینے والی ایک ادبی ثقافتی تنظیم نے یہاں ایک ایسی ادبی تقریب بھی کروائی تھی جس میں مقررین کے علاوہ ہال میں صرف دس لوگ اور ایک کتا موجود تھے دنیا کے باقی شہروں کی نسبت جرمنی میں ایسی تنظیموں کی تعداد اس لیئے زیادہ ہے کہ یہاں صحافت اور ادب کے نام پر بننے والی اکثر تنظیموں کو پاکستانی سفارتخانے اور فرینکفرٹ قونصلیٹ کی اشیر باد حاصل ہے اور ان تنظیموں کے لوگوں سے سفارتخانہ اپنی مرضی کے اور تشہیر کے کام بھی لیتا ہے۔
اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی گزشتہ دنوں برلن میں پاک جرمن رفاعی کمیٹی کے زیر اہتمام ایوارڈ تقسیم کرنے کی اور کتابوں کے اجرا کی ایک ادبی تقریب تھی جسکا انتظام و انصرام سفارتخانہ پاکستان نے اس طرح کیا تھا کہ تقریب کے سپانسر مہیا کیے تھے۔ اس تقریب میں شامل ایک خاتون کے مطابق مجموعی طور پر تقریب میں پنتالیس لوگ شامل تھے جس میں سے دس بارہ شاعر ادیب اورباقی سفیر اور سفارتخانے کا عملہ اورباقی چند سامعین تھے اور اسے عالمی تقریب کا نام دیا گیا تھااس تنظیم کے اکلوتے منتظم پرنس شکیل انجم بلوچستانی جو کوئی بیس تنظیموں کے سربراہ ہیں اور یہ تنظیمیں بس انکی زات تک ہی محدود ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اس تقریب میں جتنے ایوارڈ تھے اتنے لینے والے نہیں تھے۔
باوثوق ذرائع سے اس بات کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ فرینکفرٹ کے ایک سینئر صحافی،شاعر اور ادیب جناب ارشاد ہاشمی نے منتظمین کے مسلسل اور بے حد اصرار کے باوجود ایسا کوئی ایوارڈ لینے اور ایسی کسی تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا تھا کیونکہ انکے بقول ایوارڈ ان دنوں کسی کار نمایاں پر نہیں دیئے جاتے بلکہ بانٹے جاتے ہیں اور وہ ایسی کسی فہرست کا حصہ نہیں بننا چاہتے برلن ہی کی طرح کی ایک تقریب فرینکفرٹ میں ہوئی جسمیں کل ملا کر پچیس لوگ۔ تھے جن میں پانچ سامعین اورباقی سب شاعر ادیب تھے۔ قونصلیٹ جنرل کی ہدایات پر قونصلر زاہد حسین نے اسمیں شرکت کی اور ڈیڈھ گھنٹہ تقریب تاخیر سے شروع ہوئی لیکن وہ انتظار کرتے رہے۔
Mushaira Germany
ان دونوں تقاریب میں ٹورنٹو کے شاعر تسلیم الہی زلفی کو ایوارڈ دیئے گئے جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ٹورنٹو میں شفیق مرآد کو ایوارڈ دیئے تھے۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو۔یہاں یہ بات قابل زکر ہے گزشتہ ہفتے پاک یورو جرنلسٹس فورم نے پاکستان کے حالیہ تکلیف دہ حالات پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا تھا جس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیئے اعلی عہدیدار خود فرینکفرٹ کے قونصلیٹ گئے تھے لیکن قونصلیٹ کے کسی ایک فرد نے بھی اس اپم موضوع پر پاکستان کی نمائیندگی کی زحمت نہیں کی جس سے سفارتخانے اور قونصلیٹ کی جانبداری کا عندیہ ملتا ہے۔
فرینکفرٹ کی تقریب میں جب تسلیم زلفی کلام سنا رہے تھے تو پرنس شکیل اور شفیق مرآد کے درمیان تکرار ہوئی اور دونوں ایک دوسرے پر چیخنے لگے جس پرزلفی نے سٹیج پر کھڑے ہو کر پرنس شکیل سے کہا کہ آپ بد تہزیبی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔اس طرح ادب کے نام پر ہونے والی یہ تقریب بے ادبی کے مظاہرے پر ختم ہوئی ان تقاریب کی مزید تفصیلی رپورٹ جلد ہی پیش کی جائے گی۔