سپریم کورٹ نے جعلی ادویہ کیس میں گرفتار ادویہ ساز کمپنیوں میں تین میں سے دو کے مالکان کو شخصی ضمانتوں پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ جبکہ تیسرے ملزم ڈاکٹر وسیم بلا لائسنس ادویات بنانے کے الزام میں رہائی نہیں پاسکیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اشتر اوصاف نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پی آئی سی کو ادویات کی ایک کھیپ موصول ہوئی تھی جو بغیر استعمال کیے کمپنی کو واپس کردی گئی تھی۔ اب تک زیادہ تر اموات اچانک حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوئِی ہے جن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اب تک نہیں آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ادویات کے تجزیے کے لیے نمونے سوئٹزر لینڈ، بیلجیم اور برطانیہ بھجوائے گئے ہیں جن کی رپورٹ ابھی موصول نہیں ہوئی۔ تاہم ڈرگ انسپکٹر کی رپورٹ پر تین ایف آئی ار درج کی گئی ہے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب تک ان اموات کی وجہ کا تعین ہی نہیں ہوا تو کسی کو گرفتار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ ادویات کے حوالے سے اپنی تحقیقاتی رپورٹ چھ فروری تک عدالت میں پیش کرے اور لاہور ہائی کورٹ کا قائم کردہ ٹریبیونل اپنی تحقیقات جاری رکھے۔ عدالت کے ایک سوال کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ صحت کا محکمہ وزیراعلی پنجاب کے پاس ہے اور وہ رپورٹ آنے پر ذمہ ادروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیں گے۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت چھ فروری تک ملتوی کر دی۔