ہم ٹاک شوز میں بیٹھ کر جنرل پرویز مشرف کے میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت گرا کر دس سال تک اقتدار پر قابض رہنے کے دوران کی خامیاں تو بہت تلاش کر لیتے ہیں مگر خوبی ایک بھی نہیں ملتی جس کی حقیقت یہ ہے کہ جہاں اس نے کئی غلط اقدامات اٹھائے وہاں کئی بہت ہی اعلیٰ قسم کے ایسے کام بھی کئے ہیں جن سے ابھی تک لوگ بھرپور استفادہ کر رہے ہیں جو کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتے اکثر اوقات یہ بھی دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے جب کسی سیاست دان کے کوکسی سوال کا جواب نہ ملے تو یہ بول کر بڑی آسانی سے چھٹکارا حاصل کر لیا جاتا ہے کہ یہ سب مشرف آمریت دور کی باقیات ہیں لہذا اس کی درستگی کیلئے تھوڑا ٹائم لگے گا یہ نہیں بتایا جاتا کہ کتنا ٹائم لگے گا اور اب تک اقدامات کیا کئے گئے۔
یہاں ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ایسی باتیں وہ لوگ کر رہے ہوتے ہیںجو اُس وقت مشرف کے جاں نثار تھے پھر بی بی کے جاں نثار بنے اور اس کی جان لے لی اب کچھ میاں صاحب کے ہیں تو کچھ خان صاحب کے جبکہ ایم کیو ایم کی تو بات ہی کیا ہے یہ توملک کی وہ واحد جماعت ہے جس پر ہر وقت موسم ایک ہی جیسا رہا ہے یعنی کہ جمہورت ہو یا آمریت ان پرہر دور اقتدار کا رہا مگر موجودہ دور کو جمہوریت یا آمریت کا دور کہنا جمہورت کو یا آمریت کوکوئی انتہائی غلیظ قسم کی گالی دینے کے برابر ہے لہذا اسے غلامی کا دور تو کہا جا سکتا ہے جبکہ زرداری پارٹی کو پیپلر پارٹی کہنا بھٹو کی قبر پہ آگ جلانے کے برابر ہے کیونکہ بھٹو نے تو قوم کو اِک نئی زندگی دی تھی جینا سکھایا تھا مگر موجودہ حکومت نے قوم کے حقوق چھینے مرنا سکھایا اور بھوک افلاس سے موت دی لہذا بھٹو کی شہادت کے بعد اس وطن عزیز میں کوئی لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا جو ایک عام شہری کو اس کے حقوق دے یا دلا سکے۔
لہذا بھٹو کی شہادت کے بعد جو لوگ ملک پر قابض رہے وہ قائدین کے نام پر لگے سیا ہ دھبے امریکی ٹرینگ یافتہ ڈکیت ہیںجوآتے ہی پہلا سلام اپنے باپ دادا کو کرنے جاتے ہیں پھر لوٹ مار کرنے یہاں آتے ہیںاور جب تک ان کا باپ دادا چاہتا ہے تب تک وہ یہ بازار گرم رکھتے ہیں پھر وہیں چلے جاتے ہیں جہاں سے آئے ہوتے ہیں اگر ایسا نہیں یہ سب محب وطن پاکستانی شہری ہیں تو اپنا روپیہ پیسہ پاکستان میں کیوں نہیں لاتے ، اپنے اثاثے کیوں ظاہر نہیں کرتے ، اپنے فرایض ایمانداری سے نہیں سرانجام دیتے ، اور دھوکہ دہی وٹیکس چوری وغیرہ کیو ںکرتے ہیں ، امریکی غلامی میں ہم یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ہماری ملکی داخلہ و خارجہ پالیسی بھی امریکی اشاروں پر ہی بنتی ہے جو وطن ہمارے پہ لاگوکر دی جاتی ہے جس پر عمل کرتے کرتے اب جب وطن عزیز کو عین تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے قوم کی عقل سوچ دل دماغ سب کام چھوڑ چکے ہیں لوٹ مارکرنے کا پانچ سالہ عرصہ مکمل ہونے کو ہے مگر ابھی تک نا کسی کا احتساب ہوا ہے نا ہوگا اور الیکشن کا وقت بھی عین سر پر آچکا ہے تب جاکے ہمیں یاد آگیا ہے کہ پہلے احتساب پھر انتخاب جس کیلئے ایک سال کا عرصہ درکار ہونا بتایا جاتا ہے اور احتساب اس ایک سال میں بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس ملک میں احتساب کرنے والا ہی کوئی نہیں تو احتساب ہوگا کیسے اور کون کرے گا۔
احتساب کیلئے ہمیں خود احتسابی کی ضرورت ہے جو ہم نا کرنا چاہتے ہیں نا کر سکتے ہیںلہذا حکومت نے یہ ایک سال کا عرصہ محض مزید لوٹ مار کرنے کیلئے مانگا ہے جو ملنا جب نا ممکن سمجھاتو ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا نزول کروا یا یاپھر ازخود ہوناممکن بنایا گیااب مجھے یہاں اس نزول اور اُس کے نتائج پر بھی کچھ لکھنا ہی پڑرہا ہے جس کے پڑھنے سے اگرکسی کی دل آزاری ہوتو اس کیلئے معذرت خواہوںکیونکہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ قادری صاحب نے آتے ہی لاہور میں زیادہ سے زیادہ عوامی ہجوم دکھا کر حکومت کی توجہ اپنی طاقت کی طرف دلائی پھر پاکستانی آئین کی تشریح کرکے اپنی ذہانت دکھائی اور پھر لفظوں کے جال سے ملکی حالات کو الیکشن کیلئے ناگزیر قرار دے دیا جس پر کسی کے سوال یا شک کرنے سے پہلے ساتھ ہی اسکا جواب بھی دے دیا کہ میں الیکشن ملتوی کروانے نہیں آیا۔
اب یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ اگر واقع ہی وہ الیکشن ملتوی کروانے کیلئے نہیں آئے اور ایسا حقیقت میںکرنا چاہتے ہیں جیسا رات انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تو انہیں یہ عظیم سوچ آج الیکشن عین سر پر آجانے پر ہی کیوں آئی ، وہ آج سے کچھ عرصہ پہلے بھی تو وطن واپس آسکتے تھے؟ انہیں یہ سوچ آج سے ایک یا ڈیڑھ سال پہلے بھی تو آسکتی تھی؟ آخر ایسا کیا ہوا کہ انہیں یہ سب اس موقع پہ ہی سوجھا ، لہذا قادری صاحب کے الفاظ ،جذ بات، ذہانت اور ان تمام تر حالات و واقعات وغیرہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے مقاصد میں سے پہلا الیکشن ملتوی کروانا یعنی کہ حکومت کو مذید ایک سال تک لوٹ مار کی اجازت دیتے ہوئے اس دوران ڈیل کرنا دوسرا کسی بھی سیاسی پارٹی کی کمپین کرنا۔
Nawaz Sharif Imran Khan
جبکہ ان کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ عوامی جذبات بھڑکا ملک میں ایسے حالات پیدا کر دینا کہ الیکشن ملتوی ہوجائے اور مارشلا یا ایمرجنسی نافذ ہو اس دوران وہ اپنا ہوم ورک مکمل کرتے ہوئے زرداری ، نواز شریف اور عمران خان کے مدمقابل امیدوار وہ بھی ہوں اگر ایسا نہیں ہونے والا تو پھر یہ کھلم کھلی بلیک میلنگ اس لئے ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میںاس قسم کے نعرے لگانے والے جتنے بھی قائدین آئے سبھی نے اپنی اپنی اعلیٰ مہارتوں کے ذریعے لوگوں کے دل دماغ پر قابض ہونے کے بعد خاموشی اختیار کر لی جس کے پس پردہ حکومتی ڈیل ہوا کرتی تھی اور جوڑ توڑ لگاکر ڈیل وہیل کرنے میں صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے اگر ایسا نہیںتو پھرصاحب اپنی طاقت و ذہانت دکھا کر کسی ایک سیاسی جماعت سے الیکشن ڈیل کے چکر میں ہیںجس کے ہوتے ہی وہ کسی نا کسی جماعت کی بھرپور حمایت کا اعلان کریں گے جن میں (ن) لیگ اورپی ٹی آئی سر فہرست ہیںاوردوسری بات یہ کہ وہ اِس قابل بھی ہیں کہ ایک ہی تیر سے متذکرہ بالا تمام تر شکار کر جائیں،ایک بار پھردل آزاری ہونے کی صورت میں معذت خوا ہوں۔