کیا ہم جمہوریت سے نا آشنا ہیں ، لگتا تو ایسا ہی ہے کیونکہ یکے بعدیگرے ہمارے یہاں فوجی راج رہنے کی وجہ سے پاکستان اور پاکستانی عوام کی جمہوریت سے ناآشنائی کچھ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ دراصل یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں نیچے سے اوپر تک وہ سیاسی طبقہ ابھر ہی نہیں پایا جو جمہوریت کی پاسبانی کرتا نظر آتا ہے۔ ہمارے یہاں جو سیاسی طبقہ ابھرا بھی اس کا بڑا حصہ جاگیرداروں اور وڈیروں اور صنعت کاروں پر مبنی تھا بلکہ ہے، جو جمہوریت کے بس اسی حد تک قائل ہوتے ہیں جس حد تک وہ ان کے لئے کام کرنے کا سوچتے ہوں۔ ہمارے یہاں کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں بھی شخصیات کی پابند ہیں نظریات کی نہیں۔ کچھ جماعتیں ہے جہاں نظریات کا فقدان نظر نہیں آتا مگر ہمارے عوام اُس طرف راغب نہیں ہوتے یوں وہ علاقائی یا ایک دو صوبے تک ہی محدود کر دیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بھی ملک ترقی کے دو راہے پر کھڑا نظر آتا ہے۔
ہمارے پاکستان میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو بھی سیاسی لیڈر شپ یہاں تھی یا ہے وہ بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے فوج کی مدد کی طالب رہی ہیں۔ کئی ایسی مثالیں ہیں ، میں یہاں پر کسی کا نام نہیں لینا چاہتا اگر آپ کی یاد داشت تازہ ہو تو جملوں سے ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ کس طرف اشارہ ہے۔ پنجاب کی ایک جماعت کے لیڈر نے جب سندھ کی ایک بڑی لیڈر کو نیچا دکھانا چاہا تو وہ پہلے جنرل ضیاء الحق کے درباری بنے اور بعد میں پرویز مشرف کے مرید ہوئے۔ بلکہ پرویز مشرف کو تو انہوں نے چند اعلیٰ فوجی افسروں کی سینیاریٹی کو نظر انداز کر کے عہدے کی ترقی دی تھی۔
General Zia Ul Haq
اس تمام عرصہ میں سندھ کی عظیم لیڈر خود ساختہ جلا وطنی کا شکار رہیں۔ بعد میں پنجاب اور اس وقت کے آرمی چیف میں اَن بَن ہوگئی تو پھر سیاست دوسری طرف چلی گئی اور آرمی چیف اور سندھ کی لیڈر کے درمیان دوستی کے تانے بانے بُنے جانے لگے اور یوں پنجاب کے لیڈر کہلانے والے نے جلا وطنی کی چادر اوڑھ لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوج چاہے اقتدار پر قابض ہو یا دائرۂ اقتدار سے باہر ہو، اسی کا بول بالا رہا۔ یہی حال پاکستان کی اور دوسری جماعتوں کا بھی رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ فوج ہی کا ساتھ دیا ہے۔ اور جب مارشل لاء لگا دیا جاتا ہے تو پھر شور و غل مچانے کا معاملہ پروان چڑھتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق تو پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی آنکھوں کا تارا تھے۔ فوجی سربراہوں میں وہی سب سے زیادہ مذہبی جماعتوں کے قریب رہے تھے اور ہر معاملہ یہاں تک کہ خارجہ اور داخلہ پالیسی سازی میں بھی ان کے مشوروں کے طالب رہے۔ مذہبی لیڈر شپ کو اتنا قریب اس سے پہلے نہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے آنے دیا تھا ، نہ آخر میں پرویز مشرف نے آنے دیا۔ پھر بھی مذہبی لیڈر شپ فوجی آمریت کو حمایت دیتی رہی۔
جمہوریت چونکہ پاکستان میں آج تک اپنے پیروں پر مکمل طور پر کھڑی نہیں ہوئی جس کا خمیازہ لیڈروں سمیت ہماری عوام بھی بھگت رہی ہے۔ پڑوسی ملک کو ہی لے لیں وہاں بھی اگر کرپشن کا کوئی کیس سامنے آتا ہے تو وہاں کا وزیر بھی مستعفی ہو جاتا ہے مگر ہمارے یہاں یہ رواج بالکل نہیں ہے ۔ اسے بھی ہم کمزور جمہوریت کے پلڑے میں ڈال سکتے ہیں۔ ہماری سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ایک اور وزیراعظم کو بھی سپریم کورٹ کے حکم کے ذریعہ عہدے سے ہٹایا جا چکا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک مستقل آزار میں مبتلا ہیں، ایک بحران سے نکل نہیں پاتے کہ دوسرا بحران حکومت کو پھر دبوچ لیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار بحران کچھ زیادہ ہی شدید ہے۔ اس آزار کا سب سے مہلک جرثومہ وہ دہشت گردی ہے جسے کچھ عناصر جہاد کا نام بھی دیتے ہیں۔
یہ نہ جانے کیسا جہاد ہے کہ جس کا نشانہ ان کے ہم وطن اور ہم مذہب ہی بنتے رہتے ہیں۔ یہ بربریت ، وحشت اور بخض و عداوت کی انتہا ہے اور اسلام اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ کوئٹہ کا واقعہ اور پھر ہلاک ہونے کو سپردِ خاک نہ کرنے کا واقعہ اس قدر سنگین اور المناک تھا کہ حکومتِ پاکستان کو جھکنا پڑا اور بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ بھی کرنا پڑا۔ یعنی ایک طرف جمہوریت بھی جاری و ساری ہے اور دوسری طرف گورنر راج بھی لگ رہا ہے۔ میں یہاں اپنے ناقص رائے کو بھی مضمون کا حصہ بنانا چاہوں گا کہ صرف سرکار کی معزولی کافی نہیں ہے جب تک مجرموں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا جاتا لواحقین کو چین نہیں ملے گا۔ کیونکہ ملک بھر میں اس طرح کی کاروائی جاری رہتی ہے ، نوٹس بھی لیا جاتا ہے اور مذمت بھی کیا جاتا ہے مگر صرف نوٹس اور مذمت سے کام نہیں چلنے والا ہے سخت ترین ایکشن ہی اس مسئلے کا فوری حل ہے۔ تاکہ مظلوم عوام کی داد رسی ہو سکے۔
Long March
2008ء کے بعد ایک امید تو یہ بندھ چلی تھی کہ اب فوج سیاست کے قریب نہیں بھٹگے گی ، لیکن اب ایک مرتبہ پھر سے یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ہمارے حالیہ سیاسی بحران کی وجہ سے فوج دوبارہ اقتدار پر قابض ہونا چاہ رہی ہے، جبکہ جنرل صاحب سے ایسی من گھڑت باتوں پر کئی دفعہ ببانگِ دہل یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج سیاست میں ملوث ہونا نہیں چاہتی ہے۔ ویسے اس شبہ کی دو وجوہات نظر آ رہی ہیں ، اوّل تو یہ کہ مولانا قادری صاحب نے چند ہی دنوں میں اتنے بڑے مارچ کا انتظام کیسے کر لیا، وہ تو کینڈا سے کچھ ہی روز پہلے آئے تھے۔ یہ شک پروان چڑھ رہا ہے کہ انہیں وردی کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں انسانی حقوق کی محافظ کچھ انجمنیں اور کچھ سربرآوردہ شخصیات یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ فوج اور سپریم کورٹ نے کچھ سیاسی پارٹیوں کے خلاف آپس میں ساز باز کر لی ہے۔ یہ بات عوام کے حلق سے کسی طرح نیچے نہیں اتررہی ہے۔
موجودہ حکومت کا پانچ سالہ دور پورا ہونے کو ہے اور انتخابات کا سلسلہ بھی ہمارے یہاں زوروں پر مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب اب بھی حقیقی جمہوریت سے کوسوں دور ہیں۔ گوکہ جمہوریت کا ہمارے یہاں بہت شور ہے مگر پھر بھی جمہوریت چل رہی ہے اور اللہ اسی جمہوریت کو مزید طاقت بخشے مگر ساتھ میں جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو یہ بھی توفیق فرحمت فرما دے کہ دہشت گردی، قتل و غارت گری ، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ جیسے مستقل اژدھے کو ملک سے اُکھاڑ پھینکیں تاکہ ہماری قوم بھی کامیاب جمہوریت کے گُن گانے والوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔ موجودہ حالات میں ہم کسی سیاسی عدم استحکام کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے کہ یہاں جمہوریت کی برقراری کے خواہاں لوگ جد و جہد میں مصروفِ عمل ہیں ۔ پوری قوم کی دعائیں ہیں کہ ہمارے یہاں بھی حقیقی جمہوری نظام قائم ہو اور ہمارے یہاں کی جمہوری طاقتیں اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے سنبھال سکیں۔ راہِ حق میں آیئے ایثار کرنا سیکھئے ظلم پر صبر و رضا کا وار کرنا سیکھئے خود بخود ظلم و تشدد سَرنگوں ہو جائے گا ابنِ حیدر کی طرح انکار کرنا سیکھئے