پاکستان ایک جادو نگری ہے،جس کے حکمران وہ جادوگرہیں جو اپنے بیانات کے منتر اور اعلانات کے جادو سے قوم کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں،من پسند گوشوارے تراش کر سوانیزے سورج کے نیچے کھڑی قطرہ قطرہ پگھلتی قوم کو ترقی و خوشحالی کے سبز باغ دکھانا چاہتے ہیں اور پرفریب اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے اپنی حسن کارکردگی کی دھاک بیٹھانا چاہتے ہیں،جب تلخ حقیقتوں کو نظر انداز کرکے حکمران اپنی پسند کے منظر تراشنے کے مرض میں مبتلا ہوجائیں تو زمینی حقیقتیںاپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں،مرض کی شدت بہار اور خزاں رتوں کی تمیز مٹا دیتی ہے،حکمرانوں کاذوق نظر ہر منظر کو بہارجاودانی کے خوبصورت لبادے میں لپیٹ کر اِس طرح پیش کرتاہے، جس میںنہ رتوں کی پہچان باقی رہتی ہے اور نہ ہی موسموں کا سراغ ملتا ہے،جب قوموں کی صورت گری کرنے والے رہنما اِس بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو قافلے بھٹک جاتے ہیں اور قومیں اپنا نشان منزل کھو بیٹھتی ہیں،بدقسمتی سے پاکستانی قوم بھی ایک ایسے ہی بھٹکے ہوئے کارواں کی مانند ہے جو اپنا نشان منزل کھو چکی ہے، 64سال سے ہمارے حکمران اپنے بیانات کے جادو سے قوم کی تقدیر بدلنے کے دعویدار ہیں،مگر حالات ہر آنے والے دن کے ساتھ پہلے سے بھی ناگفتہ بہ ہیں،اِس کے باوجود بھی ہمارے موجودہ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ اگر انہیں پانچ سال پورے کرنے دیئے گئے تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے،اُن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے معیشت کو مستحکم کیا ہے،مگر زمینی حقائق کہتے ہیں کہ گذشتہ چار برسوں کے دوران موجودہ حکومت کی کارکردگی اور پالیسی ایسی نہیں رہی ، جس کی بنیاد پر اِس دعوے کو تسلیم کیا جاسکے،وہ منصوبہ جس کے ذریعے حکمران معیشت کے مستحکم کرنے کے دعویدار ہیں ،وہ خود بدعنوانی کے پھیلتے ہوئے ناسور کی وجہ سے مختلف قسم کے اسکینڈلزکی زد میں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس روز صدر صاحب نے یہ دعویٰ کیا ،عین اُسی روزمرکزی بینک کی سہ ماہی رپورٹ نے اُس کی یہ کہہ کر تردید کردی کہ ملکی معیشت کمزور ہے اور سال 2012ء کے دوران جی ڈی پی کا 4.2 فیصدکا ہدف حاصل کرنا مشکل ہے،اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ترقی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہے، حکومتی قرضے دگنے ہوگے ہیں، مہنگائی بڑھے گی، اخراجات میں اضافہ ہوگیاہے، اِس لیے بجٹ خسار ے کا بوجھ بینکوں پرآگیاہے، اسٹیٹ بینک کی رپورٹیں مسلسل پاکستان کی بدترین اقتصادی صورتحال کی نشاندہی کررہی ہیں، گزشتہ دو سال سے جاری ہونیوالی سٹیٹ بینک کی ہر سہ ماہی رپورٹ حکومتی بے ضابطگیوں کا رونا روتی نظر آتی ہے، جبکہ حکمرانوں نے بینکوں سے قرضے لیکر روزمرہ کے معاملات چلانے کا آسان راستہ اختیار کرکے ملک اور عوام کو مزید مشکلات میں ڈال رکھا ہے،اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں گیس کی قلت،تیل کی بلند قیمتوں اور زرعی اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کے عوامل کو قومی پیداوار کے مقررہ ہدف کے حصول میں دشواری کا سبب ٹھہرایا گیا ہے،رپورٹ میں اِس بات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ بیرونی وسائل سے رقم نہ آنے کے سبب بجٹ خسارہ پورا کرنے کا بوجھ بینکاری نظام پر آگیا ہے، جس کی وجہ سے نجی شعبے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی گنجائش ختم ہوگئی ہے، اسٹیٹ بینک کی یہ رپورٹ ملک کی معاشی ابتری کی بڑی حدتک عکاسی کرتی ہے ، رپورٹ سے یہ حقیقت بھی پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پستے کروڑں پاکستانیوں کیلئے مزید مشکل وقت آرہا ہے،چنانچہ اِس رپورٹ کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں مہنگائی کو لگام دئیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران اسٹیٹ بینک کے چار گورنر حکومت کی ناقابل اصلاح مالی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے مستعفی ہوچکے ہیں، مگر من مانیوں کی راۂ اختیار کرنیوالے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ،نہ ہی حکمرانوں نے اپنے اللے تللوں میں کوئی کمی آنے دی،نہ ہی ملک اور قوم کی بہتری کیلئے قابل ذکر پالیسیاں بنائی گئیں ، نتیجتاً قوم،بے روزگاری ،غربت ،بھوک و افلاس اور کمر توڑ مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہے،دوسری طرف خود حکومت نے ملکی معیشت کو ”فرینڈز آف پاکستان”، کیری لوگر بل اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں بری طرح جکڑ دیا ہے۔ آج حال یہ ہے کہ بے روزگاری اور غربت و افلاس کا گراف بلند ترین سطح پر ہے ، توانائی کے بحران نے قومی معیشت کو متزلزل کرکے رکھ دیا ہے، ہزاروں کارخانے، فیکٹریاں اور صنعتی ادارے بند ہوچکے ہیں ، لاکھوں مزدور بیروزگار ہوگئے ہیں، بجلی ، گیس اور پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ کرکے گرانی کے ایک نئے طوفان کو جنم دیا ہے،ملکی برآمدات میں زبردست کمی سے نہ صرف کئی غیرملکی منڈیا ں پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں بلکہ تجارتی خسارے میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے جس نے سرمایہ کاری کو بری طرح متاثر کیا ہے اور غیرملکی سرمائے کا فرار تیز تر ہوتا جارہا ہے،بہت سی صنعتیں بیرون ملک منتقل ہوگئیں ہیں،یہاں تک کہ پاکستانی سرمایہ کاروں نے بھی اپنا سرمایہ ملائیشیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش منتقل کردیا ہے ،اس تناظر میں اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات جس تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ،کیا اُس کا ازالہ ایک بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے لوگوں کو بھکاری بناکر کیا جاسکتا ہے،ہمارا ماننا ہے ایسا ہرگز ممکن نہیں،حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور عیاشیوں نے ملک کو اُس دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے،جہاں بینک بھی اب حکومت کو قرضے دینے سے ہچکچا رہے ہیں،اِس وقت مسئلہ صرف معیشت کے استحکام کا ہی نہیں رہا، بلکہ معاشی بحران نے ملک میں سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی مسائل بھی پیدا کردیے ہیں، کرپشن اور بدعنوانی سکہ رائج الوقت بن چکا ہے،جس کی گندگی میںاب پوری قوم لتھڑی ہوئی نظر آتی ہے، بدعنوانی اور نااہل انداز حکمرانی نے اہم اداروں کو تباہ کردیا ہے،وزیراعظم صاحب نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں عوام کیلئے ایک ریلیف پیکیج دینے کا اعلان کیا تھا،اِس بات کو آج چار سال بیت چکے ہیں، عوام انتظار کی سولی پرلٹکے رہے مگر دور دور تک انہیں ایسا کوئی ریلیف پیکیج نظر نہیں آیا،جس سے عوامی مصائب وآلام میں کمی کے آثار نظرآتے ،ستم بالائے ستم یہ کہ حکمرانوں نے اپنے انتخابی منشور میں عوام سے جو وعدے کئے تھے اور عوام نے اُن سے جو توقعات وابستہ کی تھیں،آج وہ سب حکومت کی ناکام پالیسیوںکے باعث نقش برآب بن کر رہ گئے ہیں،سوال یہ ہے کہ حکومت عوام کی مشکلات و مصائب کا ازالہ کیوں نہ کرپائی اور عوام سے کئے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں کی تارپود کیوں بکھر کر رہ گئے ۔ اِس ابتری کے حقیقی اسباب کیا ہیں؟ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، کرپشن کا کینسر ہمارے قومی وسائل کو جس طرح تباہ کررہا ہے، اُس کی تفصیلات آئے دن منظر عام پر آرہی ہیں،حکمرانوں نے چار سال تک اپنی کرپشن کی دولت کو بچانے،عدالتی احکامات کو ٹالنے اور تسلسل اقتدار کی راہیں تلاش کرنے کے سوا کسی طرف توجہ نہیں دی ،اگر عوامی مسائل اور توانائی کے بحران کو حل کرنے پر توجہ دی جاتی توآج ہماری صنعتوں کا پہیہ ٹھپ نہ ہوتا، کارخانے پیداوار دے رہے ہوتے، نئی صنعتوں کے قیام سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہورہے ہوتے، لیکن افسوس کہ ِاس عرصے کے دوران کوئی بھی مثبت نہ ہوسکا،یہ چار برس صرف زیاں کاری کا وہ المیہ ہیں جس میں ہم نے اپنے قومی وقار،آئین و قانون کی بالادستی،عوامی فلاح و بہبود ،گڈ گورننس اور اپنی مثبت اقدار وروایات تک کو کھودیا،چار سال تک معیشت کو بہتری کے بجائے ہولناک ابتری میں مبتلا کرنے والے حکمراں آج یہ مضحکہ خیز دعویٰ کررہے ہیں کہ انہیں پانچ سال پورے کرلینے دیے جائیں تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے،حیرت ہوتی ہے ہمیں اپنے حکمرانوں کی اِس مفلسانہ انداز فکر پر،جو کام وہ چار سال میں نہ کرپائے ، ایک سال میں کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں،سب جانتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی اِن کھوکھلے بیانات اور سطحی سوچ سے ممکن نہیں ہے،محض روٹی، کپڑا اور مکان کا خوش کن نعرہ لگانے، کشکول توڑنے اور اسلامی فلاحی ریاست کی خوب صورت اصطلاحیں استعمال کرنے سے تبدیلی نہیں آسکتی،نہ ہی عوام کو زیادہ دیر اِن پر فریب نعروں سے بہلایا جاسکتا ہے،یاد رکھیں جنون بادیہ پیمائی کے بغیر لمبی اور سیاہ رات کا کٹھن سفر کبھی بھی تمام نہیں ہوتا،شعور منزل جدوجہد کا متقاضی ہے، آگہی عمل مانگتی ہے اور عمل قربانی کا خراج لیتاہے،اگر ہمارے حکمران ملکی معیشت اور عوام کی حالت زار بہتر بنانا چاہتے ہیں انہیںاپنے دل میں چھپی آرزؤں اور تمناؤں کے دریچے بند کرنا ہونگے،صرف بیانات کے منتر اور اعلانات کے جادو سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے بجائے ٹھوس عملی اقدامات کرنا ہونگے اور زمینی حقائق کواپنی ذوق نگاہ کے سانچے میں ڈھال کر دیکھنے کے بجائے حقائق کے آئینے میں اِن کا درست تناظر میں جائزہ لینا ہوگا۔تحریر :۔محمد احمد ترازی