نارنجی ایک پہاڑی گاں ہے جو اس طرح سے واقع ہے کہ پولیس کو بھی اس کے نزدیک جانے کیلئے بہت ہمت درکار ہے۔ مولوی عنایت علی آس پاس کے علاقوں میں کچھ عرصے سے جہاد کی تبلیغ کررہے تھے اور کافی لوگ ان کے زیر اثر آچکے تھے جن میں خان آف پنج تر مقرب خان بھی شامل تھے۔ مقرب خان نے اپنے کزن میر باز خان کی قیادت میں انقلابیوں کی ایک چھوٹی پارٹی مردان کی طرف روانہ کی جس پر مردان سے برطانوی فوج نے حملہ کردیا مردان قلعے کا کمانڈنٹ میجر Vaughan انقلابیوں کے اس چھوٹے سے گروپ پر2 جولائی کو حملہ آور ہوا اور اسے زیر کرلیا میر باز خان اور دیگر رہنماں کو قتل کردیا گیا۔ جان محمد خان اور ملک ظریف کو گرفتار کرکے پھانسی دے دی گئی۔ دو گاں کو مکمل طور پر راکھ کا ڈ ھیر بنانے کے علاوہ کئی دیگر کو آگ کے حوالے کردیا گیا۔
21 جولائی کو کیپٹن جیمز نے نارنجی میں موجود400 انقلابیوں کے اس چھوٹے سے گاں پر ایک مضبوط فوج کے ساتھ اچانک حملہ کرکے یہاں کے مکینوں کو شدید حیران کردیا۔ تاہم اس کے باوجود انہوں نے سخت مزاحمت کی اور محض چند منٹوں میں وہاں کا ہر ا من پسند مزدور ایک مسلح سپاہی اور ہر جھگی ایک قلعہ بن چکی تھی۔ کئی غازی آگے بڑھے مگر سیکنڈ کیولری نے جلد ہی ان کا صفایا کردیاگاں کے نچلے حصے پر قابو پانے کے بعد اسے آگ لگادی گئی تاہم باقی علاقہ شدت سے ڈٹا رہا۔ زائد تعداد اور بہتر سازوسامان کے باوجود برطانوی فوج کو سیوا تک پیچھے ہٹنا پڑا اور وہ ازسرنو حملے کیلئے خود کو طاقتور نہ سمجھتے ہوئے پشاور سے آنے والی کمک کا انتظار کرنے لگی جو کہ 2 اگست کو پہنچی۔