اتحاد اُمت کے علمبردار قاضی حسین احمد بھی چل بسے ، دینی اور سیاسی حلقوں میں قاضی حسین احمد معتدل شخصیت کے حوالے سے جانے جاتے تھے اور جماعت اسلامی کی طویل ترین امارت کا سہرا بھی آپ ہی کے سر رہا اور آپ نے خوبصورت شخصیت کے مالک جنابِ الشاہ احمد نورانی کے ساتھ مل کر متحدہ مجلس عمل کی بنیاد رکھی ، قاضی صاحب اہلِ دل تھے اس لیے دل کے ”عارضہ ” میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کو ”پیارے ” ہوگئے ، اللہ تعالیٰ کرے ہم سب اللہ کو ”پیارے ” ہو جائیں آپ 12جنوری 1938ء کو زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے 1986ء میں سینٹ کے رکن بھی بنے 7اکتوبر 1987ء سے لے کر 29مارچ 2009ء تک جماعت اسلامی کے امیر اور 10اکتوبر 2000ء سے لے کر 18فروری 2008ء تک مجلس عمل کے صدر بھی رہے ،آپ کو پشتو ، فارسی ،اردو، عربی ، انگریزی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا اور آپ اکثر اپنی تقاریر میں علامہ اقبال کے اشعارفی البدیہہ کہتے تھے علامہ اقبال کا کلام اُنہیں ازبر تھا۔
کسی سیانے نے سچ کہا ہے کہ دنیا میں نیلے آسمان تلے ، خاکی زمین اوپر دو طرح کے آدمی رہتے ہیں ایک وہ جو مٹی میں مل کر خاک ہو جاتے ہیں ایک وہ جو کبھی نہیں مرتے ، ہر فرد زندگی کے سٹیج پر اپنا تماشا دکھا کے چلا جا تا ہے کسی کی اداکاری دل پر نقش چھوڑ جاتی ہے اور کسی کے سامنے سے گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا روز نئے لوگ پیدا ہوتے ہیں پرانے مر جاتے ہیں لیکن چند لوگوں کے نام باقی رہ جاتے ہیں عربی کا مقولہ ہے اَلموتُ قَد حُُ کُلُ نفسِِ شَارِ بُو ھَا وَالقَبرُ بابُُ کُلُ نفسِِ دَا خِلُو دنیا میں کہیں کوئل کی کو ہے ، کہیں پر سکون بادِ صبا ، کہیں نکہتِ گُلِ بر دوشِ ہوا ، کسی جگہ سر سبز و شاداب وادیاں ، کہیں پھولوں اور پھلوں سے لدے شجر ہائے رنگا رنگ ، کہیں قُمری کی ہو ، کہیں حُسن ہے ، جمال ہے ، کیف و سرور ہے ، فضا فرحت آگیں ہے نشاط و انبساط ہے ، کہیں نسیم ِ رحمت چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو کہیں منجمد کر دینے والی سرد ہوائیں ، کسی جگہ بھیانک چٹانیں ، کہیں خونچکاں درندے لیکن ایک دن ان سب چیزوں نے فنا کا جام نوش کرنا ہے ، لباسِ حیات انسان مستعار ہے ، اس چمنستان ِ جہاں میں جس سرو سہی نے چمن وجود میں بلندی حاصل کی ہے اسے آرہ فنا نے بیخ و بُن سے کاٹا ہے۔
Qazi Hussain
یہاں پر جس نے بھی رختِ آمال و آمانی عرصہ زندگانی میں لا کر رکھا اس کو لازمی طور پر فریب دے کر اجل نے لوٹا اس جہان ِ فانی میں چند شخصیات ایسی ہیں جو اپنے فکری انقلاب اور مثبت کار ہائے نمایاں کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی زندہ و جاوید رہتی ہیں ، انہی معدودے چند میں با کمال ، نیک سیرت اور عظیم انسان ، صاحب ِ ایمان و ایقان ، مردِ آہن ، زندگی کے ہر انقلابی اور فکری پلیٹ فارم کی جان ، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہنستا ، مسکراتا چمنستان قاضی حسین احمد کا شمار بھی ہوتا ہے خوبصورت چمکتا دمکتا چہرہ ، امت مسلمہ کے غم میں سوچتا ہوا ذہن ، دحڑکتا ہوا دل ، گفتار میں مدنی مٹھاس ، نفاست و پاکیزگی کا مظہر ، خوبصورت لباس ، کردار میں نکھار ، جب منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بولتے تو یوں محسوس ہوتا کہ فکر و دانش کی بارش ہو رہی ہو۔
قاضی حسین احمد رحمتہ رحمتہ اللہ علیہ مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے بو لتے وقت آپ کے لفظوں کا انتخاب اور جملوں کی حسن آفرینی سننے والوں کو اپنی طرف جذب کر لیتی تھی جس طرح صبح کے وقت چہکتے ، مہکتے گلاب کے پھولوں کو شبنم کے نرم و نازک قطرے ان کی رعنائی و زیبائی میں اضافہ کر دیتے ہیں اسی طرح قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ کا مسحور کُن لب و لہجہ تاروں بھری رات میں قُمری نور کی مانگ بھر دیتا ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ بھی خاصہ تھا کہ عشق ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مستی میں سر مست تھے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی باتیں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو کا پتہ دیتی تھیں ،آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کا ہر قدم اسلام کی سر بلندی ، ملک و قوم کی بہتری اور اتحاد و اُمت کے لیے ہی تھا ، دنیا کی تاریخ شاہوں اور شاہ نوازوں سے بھری پڑی ہے ہر عہد میں ظلم اور ظلمات فروش بکثرت نظر آتے ہیں اور کوئی زمانہ ضمیر کے تاجروں اور وفا کے سوداگروں سے خالی دکھائی نہیں دیتا۔
لیکن پہلو بہ پہلو لوگ بھی ملتے ہیں جنہوں نے قرب شاہی پر خود آگاہی کو ہمیشہ فوقیت دی جنہوں نے ظلمت کو ضیاء کہنے سے ہمیشہ انکار کیا جو شب پرست نہیں شب زندہ دار رہے اور جنہوں نے ضمیر کو جنس دکاں اور وفا کو متاع ارزاں نہیں بننے دیا میرے ممدوح بطل ِ حریت ، آبروئے ملت اسلامیہ ،حق و صداقت کی نشانی جناب قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ ہیں بقول شخصے”یہی وہ دیوانے ہیں جن کے سامنے ہر صدی کے فرزانے پانی بھرتے نظر آتے ہیں اور یہی وہ سودائی ہیں جن کے وجود پر چمنستان فکر و عمل کی زیبائی و رعنائی مو قوف ہے جو طبعاََ مشکل پسند واقع ہوئے ہیں۔
اگر انہیں کوئی مرحلہ درپیش ہوا تو وہ اپنا سفینہ ڈبو دینے پر آجاتے ہیں کبھی بھی طوفان سے مفاہمت کرکے ساحل پر پہنچنے کی آرزو نہیں کرتے تھے انہیں ابتلائوں اور آزمائشوں کے ہچکولوں میں لطف آتا تھا انہوں نے کبھی ایوان ِ حکومت کے پنڈولوں میں جھولنے کی کوشش نہیں کی سچ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے اعتبار ِ وفا قائم ہے ورنہ مُرغان ِ باد ِ نما تو آبروئے اہل ِ نظر کو لے ڈوبے تھے ” قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ قبیلہ سیاست کے ایسے سرِ خیل تھے جن کے طرزِ سیاست کو دیکھ کر وطن عزیز کی مروجہ سیاست سے نفرت ہونے لگتی ہے کیونکہ ہماری مروجہ سیاست کے اصول ہی کچھ اس طرح کے ہیں کہ جس کی بنیاد خالصتاََ کمرشل ازم پر رکھی گئی ہے اور آج” سیاست برائے خدمت نہیں بلکہ سیاست برائے تجارت کا اصول چل رہا ہے ”قبلہ الشاہ احمد نورانی رحمتہ اللہ علیہ کے جگری دوست جنابِ قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ کے طرزِ سیاست کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قاضی حسین حمد رحمتہ اللہ علیہ ایسے لوگ ہمیں سیاسی ایوانوں کی زینت بنے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
Nouman Qadir Mustafai
قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ نے ہمیشہ حق و صداقت ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور پارلیمنٹ کے اندر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی توانا اور مضبوط آواز کو ہمیشہ بلند کیا اور متحدہ مجلس عمل کو وطن عزیز کے سیاسی حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا آج کے سیاستدان محض اقتدار کے پُجاری نظر آتے ہیں مگر جب ہم قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ کا صاف شفاف کردار اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بقول شاعر دامانِ توکل کی یہ خوبی ہے کہ اس پر پیوند تو نظر آتے ہیں دھبے نہیں ملتے قاضی حسین احمد نے ساری زندگی سادگی میں گزار دی اور منصورہ میں دو کمروں کے فلیٹ میں کئی دہائیاں مقیم رہے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ جو بہار ملتی تو پوچھتا کہ کہاں وہ کیف نظر گیا وہ صبا کی شوخیاں کیا ہوئیں وہ چمن کا حُسن کدھر گیا اللہ تعالیٰ اُن کی تربت پر کروڑوں رحمتیں نازل فر مائے اور پسماندگان کوصبرِ جمیل عطا فر مائے (آمین)۔