غزل گوئی کا ایک مضبوط ستون اُس وقت منہدم ہو گیا جب شہنشائے غزل جگجیت سنگھ کی سریلی آواز ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی۔جگجیت سنگھ نہ صرف غزل گائیکی میں ایک بڑا نام تھا بلکہ کلاسیکل اور لوک سنگیت میں بھی ان کی آواز کے دیوانے کم نہ تھے۔ اُن کی آواز اتنی پُراثر تھی کہ سامعین محسور ہوئے بناء نہیں رہ سکتے تھے۔ جگجیت سنگھ نے موسیقی کی دنیا میں اُس وقت قدم رکھا جب پاکستانی غزل گائیکوں کا طوطی بولتا تھا مگر وہ جلد ہی اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ غزل گائیکی کے مستقبل بارے کافی فکرمند رہتے تھے اور برملا یہ اظہار کرتے رہے کہ بھارت میں غزل گانے والے ختم ہو رہے ہیں جبکہ نئی نسل چاہتے ہوئے بھی غزل گانے سے قاصر ہے۔ جگجیت سنگھ نے ستر کی دہائی میں اس وقت عروج حاصل کیا جب غزل کی دنیا میں مہدی حسن، طلعت محمود، بیگم اختر، ملکہ پوکھراج جیسی شخصیتیں چھائی ہوئی تھیں۔ اس دوران اُنہوں نے غزل کے شائقین میں گائیکی کا نہ صرف ایک نیا انداز متعارف کرایا بلکہ غزل گائیکی کو پیچیدگیوں کی زنجیروں سے آزاد کرکے اس کو سادہ نغمگی سے ہمکنار کیا۔ اُنہوںنے اپنی مدھر اور دلفریب آواز کا جادو جگاتے ہوئے موسیقی کے لاکھوں شیدائیوں کو مسرت کے لمحات بخشے اور غزل گوئی کو عام آدمی کے درمیان مقبول بنا کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ جگجیت سنگھ کا اصلی نام جیت سنگھ دھمانی تھا اور اپنے کنبے میں بھی ”جیت” کے نام سے مشہور تھے۔ اُنہوں نے ایک نابینا استاد پنڈت چھگن لال شرما سے موسیقی کی باریکیاں سیکھیں اور بعد میں سینیا گھرانہ کے استاد جمال خان سے چھ سال تک موسیقی کی تربیت پائی اور خیال، ٹھمری اور دھرپد جیسے راگوں کا علم حاصل کیا۔ وہ پیدا تو بھارتی ریاست راجستھان میں ہوئے لیکن اُن کی جادوئی آواز نے سات سمندر پار کروڑوں لوگوں کے کانوں میں رس گھولنا شروع کر دیا اور جلد ہی وہ غزلوں کے رسیائوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ جگجیت سنگھ کا نام آتے ہی غزلوں کے شائقین بے ساختہ اُن کی غزلیں گنگنانے لگتے ہیں۔ اُن کے مداحوں میں نئی نسل ہی نہیں ہر طبقہ شامل رہا ہے اور ہر سماج کا سامع ان کی غزلوں سے محظوظ ہوتا رہا۔ سنہ انیس سو چوہتر میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والے جگجیت سنگھ تقریباً چار دہائیوں تک موسیقی کے شیدائیوں کو اپنی سحرانگیز گلوکاری سے سرور بخشتے رہے۔ اُنہوں نے اردو، ہندی، پنجابی اور نیپالی زبان میں غزلیں گائیں اور انہی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں بھارت کے سب سے بڑے سرکاری اعزاز پدما بھوشن سے بھی نوازا گیا۔ غزل گائیکی کے بادشاہ جگجیت سنگھ اپنی دلسوز آواز میں جب بچپن کے دن یاد دلاتے توغزل کے دلدادہ اور شوقین سامعین بے اختیار اپنے ماضی میں پہنچ جاتے۔ اُنہوں نے غزل گائیکی میں نئی جہتیں روشناس کرائیں اور ساٹھ سے زائد فلمی اور غیر فلمی البمزمیں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ جگجیت سنگھ نے کاغذ کی کشتی، آہستہ آہستہ، ہونٹوں سے چھو لو تم، چاک جگر کے، کل چودھویں کی رات تھی ، شام سے آنکھ میں نمی سی ہے اور پَتہ پَتہ بُوٹا بُوٹا جیسی کئی لازوال غزلیں گائیں جبکہ مشہور البموں میں مرزا غالب، فیس ٹو فیس، آئینہ، کرائی فار کرائی ، منتظر اور لائیو اِن پاکستان شامل ہیں۔ وہ پردیسیوں کو بھی نہیں بھولے اور ان سے چٹھیاں نہ بھیجنے کی شکایت کرتے نظر آئے۔جگجیت سنگھ ایک ایسے دور میں وارد ہوئے جب بھارت میں غزل دم توڑ رہی تھی اور لب گور تھی لیکن جگجیت کی آمد سے اس میں نئی جان پڑ گئی۔ اُنہوںنے بالی وڈ کے معروف نغمہ نگار اور شاعر گلزار کے ساتھ بھی کافی کام کیا اور ان کے مشہور ٹی وی سیریل ”مرزا غالب” میں جس انداز سے غزلیں گائیں، اس سے نہ صرف مرزا غالب کی مقبولیت میں اضافہ ہوا بلکہ غزل نے ایک نئی بلندی بھی پائی۔اس عظیم فنکار نے غزل کو بہت نچلے طبقے میں قبول کرانے میں بہت اہم رول ادا کیا۔ برصغیر کے معروف غزل گو جگجیت سنگھ بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں نہایت مقبول تھے۔ اُن کی آخری ریلیز ہونے والی البم انتہا تھی جس نے کامیابی کے بھرپور ریکارڈ قائم کیئے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب تجارت کے راستے کھلے تو جہاں مہدی حسن اور غلام علی جیسے غزل کے شہنشاہ بھارت گئے وہیں جگجیت سنگھ بھی پاکستان تشریف لائے۔ پاکستانی غزل گائیک غلامی علی اور جگجیت سنگھ کی جوڑی کافی مقبول تھی اور دونوں کی دوستی کے چرچے بھی زبان زدِ عام رہے۔ ہسپتال داخل ہونے سے قبل انہیں چند روز سے ہائی بلڈ پریشر کی شکایت تھی اور جب ان کے دماغ کی شریان پھٹی اس سے چند گھنٹوں بعد انہیں پاکستانی غزل گائیک غلامی علی کے ساتھ ممبئی کے ایک پروگرام میں شرکت کرنا تھی۔اس کے دو ہی روز قبل دونوں فنکاروں نے دہلی میں شاندار غزل پروگرام پیش کیا تھا۔غلام علی اور جگجیت سنگھ کی دوستی اس قدر گہری تھی کہ مرحوم پرانے دن یاد کرتے ہوئے کہتے کہ ”جب وہ (غلام علی) بھارت آتے ہیں تو ممبئی میں میرے گھر ٹھہرتے ہیں۔ ہم موسیقی کے بارے میں بھی گفتگو کرتے ہیں لیکن زیادہ تر وقت گھر اور خاندان کے بارے میں بات ہوتی ہے۔ ہم 1980ء میں ایک محفل موسیقی کے دوران لندن میں ملے تھے اور تب سے ہی یہ دوستی چلی آ رہی ہے۔”دماغ کی شریان کا پھٹ جانا موت کے منہ میں جانے کے برابر ہوتا ہے۔ جگجیت کو دل کے عارضے کے باعث 1998ء میں بھی ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا جس کے بعد ڈاکٹروں نے ان کے سگریٹ پینے پر پابندی لگا دی تھی۔ بعد ازاں انہیں 2007ء میں بلڈپریشر کا عارضہ لاحق ہو گیا اور اس مرض پر قابو پانے کے لئے بھی انہیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔ برین ہیمرج کی شکایت پر انہیں آئی سی یو میں داخل کیا گیا جہاں ہنگامی طور پر نیو سرجری کے مرحلے سے گزارا گیا لیکن 10اکتوبر 2010ء کی صبح موت کا فرشتہ نمودار ہو گیا اور یوں غزل گائیکی کے بے تاج بادشاہ کی مدھر آواز ستر برس کی عمر میں ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔ بلاشبہ ایک مدھر اور دلفریب آواز سے دلوں کو چھو لینے والی شخصیت اس دار فانی سے کوچ کر گئی لیکن اپنی محسور کن، حسین اور دلگداز آواز سے جگ کو جیتنے والا جگجیت اپنی غزلوں کی وجہ سے زندہ تھا، زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ غزلوں کے رسیا اور دیوانے ہمیشہ جگجیت سنگھ کے مقروض رہیں گے اور وہ اپنی مخملی آواز کے لئے ہمیشہ یاد کیئے جائیں گے۔ تحریر: نجیم شاہ