صرف حکمرانوں کو بد عنوان اور کرپٹ کہنے یا ثابت کرنے سے عوام کی ذمہ داریاں کم نہیں ہوتی بلکہ ایسے حالات میں عوام کی ذمہ داریاں اور بھی بڑجاتی ہیں لیکن بد قسمتی سے پچھلے 65سال سے پاکستانی عوام نے ہر حکمران کو غلط کہنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ جن حکمرانوں کو پاکستانی عوام غلط کہتے ہیںوہی لوگ بار بار الیکشن جیت کر پاکستان پر حکومت کرتے ہیں ۔عوام جن کو غلط کہتے ہیں ووٹ بھی انھیں کو ہی دیتے ہیں ۔جب منتخب کرنے والوں کے قول وفعل میں تضاد ہو گا تو پھر کیسے ان کے منتخب کیے ہوئے لوگ سچے اور ایماندار ہوسکتے ہیں ۔ اور پھرکسی ملک یا کسی ریاست کو چلانے کے لیے صرف حکمران ہی توکاقی نہیں ہوتے بلکہ عوام پر بھی حکمرانوں سے زیادہ ذمہ داریاںعائد ہوتیں ہیں کرڑوں لوگوں پر چندحکمران تب ہی کامیابی سے حکومت کرسکتے ہیں جب وہ عوام کے صحیح ترجمان ہوں اورجہاں جمہوریت ہو وہاںصحیح ترجمان تلاش کرنا عوام ہی کے اختیار میں ہوتا ہے ۔پاکستان کے عوام اگرچہ اپنے ہی منتخب کئے حکمرانوں کو برا سمجھتے ہیں لیکن برا سمجھنے کے باوجودمیری قوم کا حال یہ ہے کہ اپنی جیب میں انھیں برے حکمرانوں کے وزٹینگ کارڈ رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور خاص طور پر سیاسی ورکر ان کا تعلق چاہے کسی بھی پارٹی سے ہووہ اپنے آپکو خدا کی اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہیں ۔جس کے پاس کسی mpaکارڈ ہووہ اپنے آپکوہی mpaسمجھتا ہے اوراس حساب سے اگرکسی کے پاس mnaکاکارڈہوتووہ بھی خود کوہیmnaسمجھتا ہے۔میرے ہم وطن جن حکمرانوں کوان کے دور حکومت میں بہت برا سمجھتے ہیں الیکشن کے دنوں میں انھیں کے نعرے لگاتے نظرآتے ہیںجن کو، کرپٹ ،چورلٹیرے اور غدارکہا ہوتا ہے الیکشن کے دنوں میں انہی لوگوں کے ساتھ تصویریں بنوا کر اپنی بیٹھک کی دیواروں پربڑے بڑے فریموں میں بڑے ہی فخر سے آوزاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس شخص کوبڑا لیڈر سمجھا جاتا ہے جوچوروں ،ڈاکوں ،منشیات فروشوں ،کی پشت پناہی کرے اور جورشوت خوروں کو اچھی طرح ڈیل کرسکے اور جس کی برادری بڑی ہو ۔اس طرح بڑی برادریوں سے تعلق رکھنے والے کرپٹ سیاست دان لیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں۔جس برادری کا ایک فرد mpaیاmnaبن جاتا وہ ساری برادری اپنی گاڑیوں پرmpaاورmnzلکھی نمبرپلیٹ لگاکراختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ان حالات میں ہر خاص وعام کی دلی خواہش ہے کے وہ کسی نہ کسی طرح سرکاری عہدے پر فائز ہوجاے تاکہ وہ اپنے آپ میں سرکار ہوجاے ۔ اقتدار کی بھوک ہمارے معاشرے کی رگوں میں اس قدر سرایت کر گئی ہے کہ قوم کا ہر فرداپنے آپکوراتوںرات بغیر محنت کئے بڑھا آدمی بننا چاہتا ہے ہماری چھوٹی سی ننھی سی تمنایہ ہوتی ہے کہ ہم کم ازکم ملک کا، صدر،وزیراعظم،وزیراعلیٰ،یا پھر کم ازکم کوئی نا کوئی وزیربن سکیں ۔ اور یہ سارے عہدے ہم ملک وقوم کی خدمت کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی شخصیت کا قد بڑا کرنے کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔جس قوم کاہر فرد صرف اپنے لیے ہی سوچتا ہو اس کے حکمران کس طرح ملک و قوم سے مخلص ہو سکتے ہیںایسی قوم کے خواب کیسے بھی ہوں حقیقت صرف ہوس اورلالچ ہوتی ہے ۔ اقتدار کی بھوکی قومیوں کے خواب بھی ہوس اور لالچ سے بھرے ہی ہوسکتے ہیں جس ریاست میںآفیسر شاہی چلتی ہو وہاں کبھی بھی تعلیم کا معیارایک جیسا نہیں ہوسکتا ۔جس ملک میں وڈیرا راج ہو اس ملک میں غریب کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتا کیونکہ اندھوں کے شہرمیں آئینہ فروخت کرنے والا بھوکاہی مرتا ہے اندھوں کی جانے بلا آئینہ کیا چیزہوتی ہے۔ جس ریاست میں جمہوریت صرف جاگیر داروں ۔وڈیروں۔سرمایاداروں کے گھر کی لونڈی ہو جہاں ووٹراپنے ووٹ کا استعمال صرف ذاتی تعلق اورذات برادری کے مفاد کے لیے کرے تو پھر وہاں اچھے حکمران کہاں سے آئیں گے ۔ کسی ریاست کی ساری عوام پڑھی لکھی ۔باشعور۔اعلیٰ اوصاف کی مالک ہومگر ان پر حکمرانی جاہل۔ان پڑھ۔نالائق اور نااہل لوگ کریں تو وہ قوم دنیا کو کیسے ثابت کرسکتی ہے کہ با حیثیت قوم وہ بہت پڑے لکھے ۔قابل ۔باشعور ۔اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں ۔کیونکہ ہر ریاست کے حکمران ہی دنیامیںپوری قوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جمہوریت میں جو پارٹی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتی اسی کی حکومت بنتی ہے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہر پارٹی ہر حلقے میں مضبوط امیدوار کی ضرورت ہوتی تاکہ الیکشن میں کامیابی یقینی ہوبد قسمتی سے وطن عزیز میں آج تک سب سیاسی پارٹیوںکو مضبوط امیدوار صرف وڈیروںاورسرمایادارخاندانوں نے ہی فراہم کئے ہیں ان حالات میں محب وطن لوگ تو بس اچھے وقت کی امید ہی کرسکتے ہیں یہ امید ایسے ہی ہے جیسے جاگتی آنکھوں کا خواب ہو کچھ ایسے خواب کاذکر جناب جنرل(ر)عبدالقیوم نے اپنے کالم میں بھی کیا جنرل صاحب نے محب وطنوں کے خواب کو جو شکل دی ہے اسے دیکھ کر میری تو آنکھیں نم ہو گئی ۔جناب جنرل(ر) عبدالقیوم نے بہت ہی سادگی سے ہر محب وطن پاکستانی کے دل کی بات ایک خواب کی صورت بیان کردی جنرل صاحب نے لکھا کے) ہرمحب وطن پاکستانی کا یہ خواب ہے کہ پاکستان اس کی زندگی میں ہی ایک خوشحال ملک بن کر ابھرے ۔ایسا ملک جہاں بچوں اور جوان نسل کے لیے تعلیم سستی ،جامع اور متوزن ہو،یعنی پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والے ہر بچے کے لیے ایک ہی نصاب ہو جودنیاوی اور دینی تعلیمات کا بہترین آمیزہ ہو۔سب طلبا کیء یونیفارم ایک ہو اور غریب گھرانوں کے خصوصا ذہین بچوں کے لیے بنیادی اور اعلیٰ تعلیم مفت ہوکوئی بچہ بھی سکول سے باہر نہ رہے طبی سہولیات کا اتنا عمدہ نظام ہوکہ ہرشہری کو مناسب علاج اور سستی ادوایات میسر ہوںہر پاکستانی مسلمان اسلامی جذبے سے سرشار ہوکر غربت اور افلاس کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے زکواةکے علاوہ بھی مستحقین کی ہر لحاظ سے مالی اور اخلاقی امداد کی جائے پاکستان کے اندر دس کروڑ نوجوانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کوپاکستان کی قسمت بدلنے کے لیے استعمال کیا جائے جو صرف اس وقت ممکن ہوگا جب ہم سب نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنادیں گے قانون کی حکمرانی ہو عدالتیں آزاد ہوں اور احتساب کا نظام سخت ترین ہو )اس کے علاوہ جنرل صاحب نے کچھ ہم خیال سیاسی جماتوں کے اتحاد کی بات بھی کی جنرل صاحب کی رائے معتبر ہے مگر پاکستانی عوام تحریک انصاف سے بھی بے زار ہیں کیونکہ عمران خان بھی اپنی پارٹی میں ان سب لوگوں کو شامل کررہے ہیں جو کبھی پیپلزپارٹی میں جاتے ہیں توکبھی مسلم لیگ ن اورمسلم لیگ ق کی حکمتوں میں شامل رہ چکے ہیں یہ لوگ سیاسی ہوا کا رخ اچھی طرح سمجھتے ان لوگوں کو جس طرف اقتدار کی رت نظر آتی یہ اسی طرف کی ہوا کے ہو لیتے ہیں ان اقتدار کے بھوکوں کو اگر چلے ہوئے کاتوس کہا جاے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ یہ سارے چلے ہوئے کارتوس یعنی وہی پرانے سیاسی لوٹے جاگیر دار اور وڈیرے ہی ہیں ان کا مقصد صرف حکومت میں شامل ہو کر اپنے آپکو اور زیادہ طاقت ور بنانا ہے یہ کبھی بھی ملک وقوم کی خدمت نہیں کرسکتے اور آج کل یہ سارے بدلتے ہوے سیاسی موسم کودیکھ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں ۔عمران خان بھی اگر ان پرانے سیاست دانوں جن میں سرمایادار۔وڈیرے ۔جاگیر دار ۔کرپٹ کو اپنی پارٹی میں شامل کریں گے جو روز کسی نہ کسی ٹی وی ٹاک شو میں ایک دوسرے کی کرپشن کے ثبوت بڑی بڑی فائلوں میںلے کر آتے ہیں اور ایک دوسرے چیلنج کرتے ہیں اخبارات میں ان سب کے دوسرے کے خلاف کچھ ایسے بیانات چھپتے ہیں کہ ثبوت ہیں تو عدالت میں جائو اور عدالت میں ثابت کرومگر ان میں سے کوئی بھی نہ تو عدالت جاتا ہے اور نہ وہ ثبوت میڈیا اور عوام کو دیتا ہے ۔پاکستانی میڈیا تو ان لوگوں کا اصلی چہرہ عوام کے سامنے لا کر اپنا فرض ادا کررہا ہے ۔ سیاست دانوں کا یہ عمل صاف ضاہر کرتا ہے کہ وہ سب کرپٹ ہیں سب کے سب چور ہیں یاایسے لوگ کبھی بھی ایک دوسرے کا اتصاب نہیں کر سکتے کیونکہ نہ صرف یہ سارے کرپٹ ہیں بلکہ ایک دوسرے کے رشتے دار بھی ہیں ۔اوراگر یہ سارے چور تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تو پھر عمران خان بھی کوئی تبدیلی نہیں کر پائیں گے ۔ان پرانے چہروں کی بجائے اگر عمران خان نئے اور ایماندار لوگوں کوجن کاماضی صاف ستھرا ہو تحریک انصاف میں شامل کریں توبہت بہتر ہوگا کیونکہ عوام عمران خان کو ہی تبدیلی کے روپ میں دیکھ رہے ہیں ۔ خیر یہ باتیںتواب ساری دنیا جانتی میں آج اس موضوع پر زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ جہاں تک بات ہے ہم خیال سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی تومیرے خیال میں سیاسی جماتوں کا اتحاد تو صرف ایک ہی صورت میں ہوسکتا ہے اور وہ یہ کے ہر پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے ورکر کو صدر۔وزیراعظم ۔ وزیراعلیٰ یاکم ازکم وزارت ضرور ملنی چاہیے اوراگر ایسا ہو تو ملک میں ہردوسرا شخص وزیر ہوگااس کے علاوہ اقتدار کے بھوکوں کا کوئی اتحاد نہیں ہوسکتا۔یہ میرا ذاتی خیال ہے اللہ کرے ایسا نہ ہواور عمران خان اور میاں نوازشریف میں اتحاد ہوجائے کیونکہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔میاں صاحب کے پاس سیاسی سوجھ بوجھ بھی ہے اور ایک ماہر ٹیم بھی ہے اور سب سے بڑ ھ کر میاں شہباز شریف بھی مسلم لیگ ن کے پاس ہیں جن کونہ صرف پنجاب بلکہ سارے پاکستان کے عوام اچھا لیڈر مانتے ہیں کیا ہی اچھا ہو اگرمیاں نواز شریف اور عمران خان جن کو عوام سچا اور ایمان دار مانتے ہیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیں ۔اس وقت جب پاکستان تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ۔پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ایک دوسرے پر حملے کرنے کی بجائے ملکی وقومی کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے کے قریب آئیں اوراپنے ساتھ ان لوگوں کو شامل کریں جو محب وطن ہیں سب مل کر پاکستان کو مشکلات سے نکالیں۔ تاکہ جو خواب جنرل(ر)عبدالقیوم صاحب نے محب وطن لوگو ں کی آنکھ سے دیکھا وہ پورا ہو سکے۔ تحریر : امتیاز علی شاکر