حافظ سعید کی پبلسٹی کیلئے ہیلری کی ہندوستان میں جھلکیاں

Harry Clinton

Harry Clinton

اوبامہ انتظامیہ نے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو حافظ سعید کی پبلسٹی کے تعلق سے ایک نئی ذمہ داری سپرد کی ہے کہ وہ اس دھشت گرد کو شہرت دلانے میں ایک خوبصورت کردار ادا کریں۔ اس نئی زمہ داری کے حصول کے بعد ہلیری کلنٹن نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ ایسی مقصد کے تحت وہ ہندوستان آئیں تھیں۔ انہوں نے سرزمین ہند میں قدم رکھتے ہی حافظ سعید پر پچاس کروڑ ڈالر کی انعامی رقم کو جائز قرار دے کر اپنا کام صحیح طرز پر شروع کر دیا۔ گویا کہ حافظ سعید کی پبلسٹی کیلئے ہیلری کی ہند میں جھلکیاں نظرآئیں۔ اس سے واضع ہوتا ہے کہ حافظ سعید کو بارک اوبامہ کے سیاسی مقصد کے حصول کیلئے اسی طور تیار کیا گیا ہے۔ جس طور پر جارج بس کیلئے اوسامہ بن لادن تھے۔ ان کو کتنا زیادہ خوں خوار بنایا جاتا ہے۔ اس کی مشق ہیلری کلنٹن نے ہندوستان آ کر شروع کر دیں۔ ان محترمہ کو یہ امید ہے کہ بارک اوبامہ کے بعد وہ ہی ان کی اصل جانشین ہوں گی جبکہ یہ ان کی ایک خام خیالی ہے۔

فی الوقت دنیا کے ماحول کو دھشت زدہ بنانے کیلئے حافظ سعید اور ان کی تنظیم جماعت دعوة کے حوالہ سے ایک نئی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ حافظ سعید کے تشہری عمل کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہیلری اور ان کی پارٹی اسلام و مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن بن کر کام کررہی ہے۔ انہوں نے اپنے اثرورسوخ سے مسلم حکمرانوں کو ہٹانے کیلئے پُرتشدد کرایہ کی احتجاج کی خفیہ مہم مسلم ملکوں میں چھیڑ رکھی ہے۔ یہ لوگ مسلم حکمرانوں سے دوستی کا ہاتھ ملاتے ہیں۔ مگر پیچھے سے ان کے پیٹ میں خنجر گھوپتے ہیں۔ مصر و دیگر مسلم ملکوں میںان کے کارنامہ دنیا نے خوب اچھی دیکھے۔ حالانکہ انہوں نے ایران سے پُرتشدد کرایہ کے احتجاج کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ مگر ایران نے اس فریب پر مبنی انقلابی احتجاج کو کچلنے میں زبردشت کامیابی حاصل کی۔ کیونکہ اوبامہ انتظامیہ نے اس کام کا آغاز ایران سے کیا تھا یہاں ان کے ہاتھ ناکامی آئی تو پھر مصر ان کا پہلا شکار بنا، پھر اس کے بعد دیکے بعد دیگرے مسلم ملکوں پر سیکنجہ کسا گیا۔

لیبیا میں کرنل قذافی کا قتل بھی بڑے خوبصورت اندازمیں کر دیا گیا۔ یہ کوئی انقلابی تحریک نہیں تھی بلکہ مسلم ملکوں کو کمزور کرنے کا ایک گمراہ کن مشغلہ تھا۔ ان کے اس مشغلہ میں لاکھوں توحید اسلام لقمہ اجل ہوگئے۔ لاکھوں لوگوں کی جان ومال، عزت و آبروسے کھلواڑ ہوا یہ ایک شرارت تھی۔ اس شرارت کو ہیلری اور ان کے دوستوں کی تائید حاصل ہوتی رہی ہے۔ اوبامہ انتظامیہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ دنیا کی دوست ہے مگردوستی کے حوالہ سے ان کا سفر جس ملک میں بھی شروع ہوتا ہے۔ وہاں کی تباہی کے نقشے ان کے ذہن میں نقش ہونے لگتے ہیں۔ اب ہیلری کی مخصوص نظریں بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی پر ٹکی ہیں۔ وہ اس کوشیش میں ہیں کہ کس طرح ان کو ہندوستانی حکومت سے باغی بنا کر اپنے مقصد کیلئے کام لایا جائے۔ وہ یہاں سے وآپس لوٹنے کے بعد یہاں کی تباہی و بربادی کی مہم جوئی میں مصروف و مشغول ہوسکتی ہیں چونکہ ہیلری کلنٹن ایک لا اعتبار دوست ہیں۔ جن پر بھروسہ کرنا خود کو خودکشی پر آمادہ کرنا جیسا ہے۔ ان کی موجودگی دوسرے ملک میں کسی خطرناکی سے کم نہیں۔ وہ ہندوستان میں یہ بتانے کیلئے آئیں ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کے دشمن حافظ سعید پر پچاس کروڑ کا انعام رکھواکر اپنی ہندوستان سے وفاداری ثبت کی ہے۔

جبکہ ان کا انعامی رکھنے یا نا رکھنے کو تعلق کسی سے وفاداری نہیں بلکہ یہ دھشت گردوں کو شہرت دینے ودلانے کی حکمت عملی ہے۔ جس کوسرزمین پر انجام دیا گیا۔ دھشت گردوںکو بنیاد بنا کر مسلمانوں و اسلام کو اس طرح بدنام کیا جاتا ہے۔ جس سے وہ لوگ مسلمانوں و دیگر اقوام پر اپنا رعب جماسکنے میں کامیاب ہوسکیںدھشت گردی کا ماحول سرگرم رکھنا دادا گیری کو برقرارکیلئے ضروری ہے۔ جس شخص کانام لیکر اس پر دھشت گردی تھوپی جاتی ہے۔ وہ اس کی مہم کا ایک خا ص حصہ ہوتا ہے۔وہ پھر اس کے خلاف مخالفت کا ایسا محاذ کھلتا ہے کہ دنیا پھر گمراہیت کے دلدل میں لت پت ہوجاتی ہے۔ دنیائی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس کا مخالف ہے مگر وہ اس کا خاص رفیق ہوتا ہے۔ لیکن ان کے پیش رو جارج بش نے دھشت گردی کے تعلق سے جو روش اختیار کی۔ وہ بارک اوبامہ سے بلکل مختلف تھی۔ وہ تخلیقی کیسٹوں سے دھشت گردی کے وجود کو زندہ کرتے دیتے تھے۔ مگر اوبامہ انتظامیہ نے اپنے نمائندے حافظ سعید کی شکل کو اختیار کرکے نئی سیاسی محاذ آرائی شروع کی ہے۔ لیکن اوسامہ بن لادن کوجس ڈرامائی انداز میں قتل کیا گیا ہے۔ اگر ری پبلیکن کے نمائندوں نے تخلیقی کیسٹوں سے اوسامہ کو پھر زندہ کرکے فضائوں میں اگر سیاسی ہلچل مچادی تو پھر بارک اوبامہ کیلئے صدارتی الیکشن جیتے کے لالے پڑ جائیں گے۔ کیونکہ اوسامہ کی موت تخلیقی کیسٹوں میں ابھی بھی پہناں ہے۔ اس کی لاش کو ہندوستان کے ساحل پر دیکھائے پڑنے کے ڈرامہ ابھی سے اجاگر ہونے لگے ہیں۔ آگے یہ کوئی کسی بڑی شرارت کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ چونکہ ڈیموکریٹ سے زیادہ ری پبلیکن چالاک ہیں۔

کیونکہ جس تالاب میں ڈیمورکریٹ تیرتے ہیں ۔اس میں تیر کر ری پبلیکن پہلے ہی نکل لئے ہوتے ہیں۔ ہماری ہیلری کلنٹن صاحبہ کو ایمن الظواہری پاکستان میں نظر آتے ہیں۔ ظواہری کا وجود بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ اوسامہ کا تھا۔ اگر صدارتی انتخاب کے عین موقع پر ووٹینگ سے ایک دو دن قبل کسی تخلیقی کیسٹ سے ان کا وجود ہو گیا تو اوبامہ کو حکمرانی دنیا سے ایسے مٹ جائے گی ۔ جیسے کہ حسنی مبارک و کرنل قذافی کی حکمرانی ختم ہوئی ہے۔ لیکن ڈیموکریٹ نے ایمن ظواہری تلاش کیلئے اپنا سیاسی کھیل شروع کردیا ہے۔ ظہواری و اوسامہ کے نام پر ری پبلیکن سیاست کرتے ہیں۔ اوسامہ کو اوبامہ انتظامیہ کے ہاتھو ں جو تخلیقی قتل ہوا۔ غالباً اس کی نشان دہی میں ری پبلیکن نے اپنا کردار ادا کیا ہو گا یعنی اس کام میں یقینا ری پبلیکن نے ڈیمورکریٹ کا بے وقوف بنایا ہو گا۔ اگر ایسا ہے۔ تو اوسامہ کا تخلیقی وجود کبھی بھی ری پبلیکن کے ذریعہ اوبامہ کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کیلئے منظر عام پر آ سکتا ہے۔ حافظ سعید کے ذریعہ اوبامہ انتظامیہ کا ایک سیاسی کھیل بھی ہے اوراس کے سہارے ہیلری کلنٹن ہندوستان کی دوست بن کر پاکستان کو چابک دیکھارہی ہیں۔ سر زمین پاک کو ایمن الظہواری کی پناہ گاہ دیکھا رہی ہیں۔

القاعدہ وطالبان و دیگر اسلامی حلیہ تنظیمیں جو تخلیقی کیسٹوں سے امریکہ یا وہاں کی کسی سیاسی جماعت کو یا کسی سیاسی لیڈر کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ تو یہ مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کی اسلام دشمنوں تحریک ہوتی ہے۔ جس میں امریکی ادارے اس میں نا صرف ملوث ہوتے ہیں بلکہ اس میں بذات خود شریک ہوتے ہیں یہ اسلام و مسلمانوں کو امریکی میڈیا سے بدنام کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔حافظ سعید پر انعامی رقم رکھنا گویا اپنے ایجنٹ کو مشہور کرنا ہوتا ہے۔

اگر حافظ سعید امریکہ کو یا ان کے کسی عہدے دار کا دھمکیاں دیتا ہے۔ تو یہ اس کا آلہ کار اور خفیہ ایجنٹ ہی یقینی طور پر ہو سکتا ہے۔ اسلام یا مسلمانوں کا وفادار نہیں۔ کیونکہ مذہبی لباس ، مذہبی شناخت میں اگر مذہبی شخص دھمکیاں دیتا ہے تووہ اسلام پر ہی حملہ کرتا ہے۔ اس طرح و ہ دشمنان اسلام کے مفاد کو اسلامی حلیہ میں تکمیل کررہا ہے۔ ایسا شخص مذہب اسلام کا غداری کرتا ہے۔ ایسے شخص کو ہمیشہ کیلئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دینا چاہئے۔ اس طرح کے عمل سے اسلام کی اصل روح اور اس کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ بڑے شرم وافسوس کی بات ہے کہ اس طرح مذہب اسلام کو خفیہ طور پر مگر دانشتہ داغدار، بدنام و بے عزت کیا جارہا ہے۔یہ عمل نا قابل قدر ہے۔ اسلام کا شیدائی اس عمل کو پایہ حقارت سے ٹھکراتا ہے۔ حافظ سعید جیسے لوگ درندہ صفت بھیڑیئے ہیں۔ آستین کے سانپ ہیں۔ ایسے لوگوں کی موجودگی سے اسلام کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اسلا م کیلئے نہیں بلکہ ذاتی مفاد یا اسلام دشمنوں کیلئے کام کرر ہے ہیں۔ آخر اوبامہ انتظامیہ کی جانب سے حافظ سعید کی پبلسٹی کا راج کیا ہے۔ اگرکوئی حکمراں ایسے لوگوں پر انعامی رقم رکھ کر ان کو شہرت بخش رہا ہے۔ تو وہ بھی مذہب اسلام اور مسلمانوں کا بدترین دشمن ہے۔

مسلمانوںکیلئے یہ بات بڑے دکھ کی ہے۔ کہ ہندوستا ن کے ایک صوبہ کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی نے امریکہ کے صدر بارک حسین اوبامہ کو بنگال آنے کی دعوت ہیلری کلنٹن کے ذریعہ دی ہے۔ ان کا ایسا عمل گویا اس طرح مسلمانوں پر تازہ حملہ کر دیتا ہے۔ ان کو (اوبامہ) کو دعوت دینا گویا مسلمانوں کی توہین کرنا ہے۔ لہذا اب ممتا مسلمانوں کی نظروں میں وفادار نہیں رہیں۔ ممتا کو بارک اوبامہ کے تعلق سے علم نہیں۔ ان کو یاد دلاتے ہیں۔ اوبامہ کے دوراقتدار میںمسلم ملکوں کو کرایہ کے پُر تشدد احتجاج کے ذریعہ درد ناک نقصان پہنچایا گیا۔ مسلم حکمرانوں کو اقتدار سے ہٹاکر ان کو بے آبرو کیا گیا۔عراق ، لیبیا میں روز مرہ کی نقل و حرکت پرسالوں و مہینوںراکٹ بموں سے ضرب کاری کی گئی۔احتجاج پر آمادہ کرایہ کے لوگوں کا مسلسل ساتھ دیا گیا۔ اگر بارک اوبامہ ممتا کی دعوت پر ہندوستان کے صوبہ بنگال میں آئے تو مسلمان ممتا سے اپنی حمایت ترک کرکے ان کو مایا وتی کی طرح سیاسی سبق سیکھائیں گے۔ مسلمانوں کے ووٹوں کے ذریعہ حکمرانی کرنے والی ممتا بینر جی مسلمانوں کے دوشمنوں کو ہی اپنے سر پر بیٹھا رہی ہیں۔ جو کہ بڑے شرم کی بات ہے۔ جس کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

ممتا جی ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں۔ کہ جو غلطی وہ کرچکی ہیںیا کرنے جارہی ہیں۔ایسی ہی غلطی آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ چند بابو نائڈو بھی کی تھی۔ان کی تقریب میں بل کلنٹن ان کی دعوت پر ہندوستان کے اس صوبہ میں آئے تھے۔ تب مسلمانوں نے اس غلطی کی ان کو اقتدار سے بے دخلی کی سنگین سزا دی تھی۔ اگر چند بابو نائڈونے بل کو نا بلایا ہوتا تو وہ ان کا اقتدار ہاتھ سے نہ جاتا۔ اب وہ ہی غلطی ممتا جی بھی کررہی ہیں۔جس کی ان کو بھیانک سزا بھگتنی پڑسکتی ہے؟ اگرممتا ہندستان کے مسلمانوں کے تئیں وفادار ہیں۔ تو ان کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ورنہ پھراقتدار سے بے دخلی کے تیار رہیں۔

بہرحال حافظ سعید کی پبلسٹی کیلئے ہیلری کلنٹن صاحبہ ہند وستان آکر جھلکیاں دیکھا رہی ہیں۔ تو ری پبلیکن اُن کی اِن جھلکیوں پر پانی چھوڑ سکتے ہیں۔ بہر کیف ایک عجب سیاسی تماشہ ہے اور تخلیقی کیسٹوں کاایک تخلیقی وجود ابھی بھی موجود ہے۔ بارک اوبامہ آئندہ کیا صدارتی جنگ جیت پائیں گے ۔ اب یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ ہیلری صاحبہ ایران پر پابندی سے قبل اپنے اقتدار کو بچائیں۔ مذہب اسلام دھشت گر د مذہب میں تبدیل کرنے کی مہم کو ترک کردیں۔مسلم ملکوں میں کرایہ کے پُر تشدد احتجاج کو اپنی حمایت دینا بند کر دیں۔ مسلم ملکوں میں ڈرون حملوں سے مارے جارہے بے قصور لوگوں کی ہلاکت پر معافی مانگیں۔کشمیر کو آزادی پنجرہ بناکر اس میں تمام کشمیریوں کو قید کر کے، اس پنجرہ کو اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر لٹکانے کی ناپاک مہم کر ترک کردیں، ڈرون حملوں سے بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں۔ حملہ بعد کہا جاتا ہے کہ حملے دھشت گردوں پر تھے۔یہ غلط روش ہے۔ اس کی حکمت عملی میں تبدیل کی جائے۔ پوری دنیا میں انسانیت کو احترام بہت ضروری ہے۔ دوستی اگر کی جائے تو وہ مستحکم ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ایک طرف بارک اوبامہ حسنی مبارک سے دوستی کا ہاتھ ملاتے ہیں۔ اس بعد اپنے دوست کے پیٹ میں خنجر گھونپ کر دوستی کے لفظ کو گنہگار کرتے ہیں۔ اس کو درست کیا جانا چاہئے۔ تازہ حالات میںہیلری یا اوبامہ سے دوستی کرنا اپنے ملک کے عوام کو خطرہ میں ڈالنا ہے ہیلری نے ممتا کی مہمان بن کر اور ممتا نے اوبامہ کو دعوت دیکر ہندوستان کے 35 کروڑ مسلمانوں کو نیچا دیکھانے کی کوشیش کی ہے اور ہندوستا ن کے مجموعی ایک ارب تیس کروڑ عوام کے ساتھ ایک خوبصورت مذاق کیا ہے۔

کیونکہ دشمنوں کی تازہ ہلچل اس خطہ کو اور یہاں کے عوام کو تباہی کی طرف دھکیل نے کی نیت سے ہورہی ہے۔ جس سے اس خطہ کے عوام کو ہوشیار رہنے کی ضرورت زیادہ ہے۔

تحریر : ایاز محمود