اردو ہندی کے ڈرامہ نگار اور تھئیٹر ڈائریکٹر۔حبیب تنویر یکم ستمبر انیس سو تئیس کو وسطی ہندوستان کے شہر رائے پور میں پیدا ہوئے اور اپنے کرئیر کا آغاز صحافت سے کیا۔ موسیقی اور شاعری سے بھی شغف رہا۔
مشہور ڈرامے
حبیب تنویر کی مشہور ترین تخلیقات میں آگرہ بازار(انیس سو چون) اور چرنداس چور( انیس سو پچہتر) شامل ہیں۔انہوں نے انیس سو انسٹھ میں نیا تھئیٹر کے نام سے ایک ڈرامہ کمپنی قائم کی۔ انیس سو بہتر میں راجیہ سبھا کے رکن بنائے گئے۔
نیا انداز
اس کے علاوہ وہ ملک کے اعلی اعزازات سے بھی نوازے گئے لیکن شاید انہیں سب سے زیادہ یاد اس لیے کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنے ڈراموں میں بڑے ناموں کے بجائے لوک فنکاروں کو استعمال کیا اور ان گلیوں اور بازاروں کو ہی سٹیج بنایا جن کی کہانی وہ بیان کر رہے تھے۔اس تجربہ کا آغاز آگرہ بازار سے ہوا جو اٹھارویں صدی کے شاعر نذیر اکبر آبادی کی زندگی اور ان ک تخلیقات پر مبنی تھا۔ نذیر اکبر آبادی خود عام لوگوں کے بارے میں انہیں کی زبان میں لکھتے تھے۔اس ڈرامے کے لیے حبیب تنویر نے روایتی انداز سیکنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے دلی کے مقامی لوک فنکاروں اور ‘سٹریٹ آرٹسٹس’ کو استعمال کیا۔
بامقصد تھیٹر
اس کے بعد انہوں نے تین سال برطانیہ کی رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس میں تربیت حاصل کی اور یورپ میں مختلف ہدایت کاروں کے کام کا مطالعہ کیا۔ وہ سب سے زیادہ متاثر جرمن تمثیل نگار ربٹولٹ براخت کے کام سے ہوئے۔ہندوستان لوٹنے پر تنویر اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جب تک اپنی ثقافتی روایات کا بھرپور استعمال نہ کیا جائے، سماجی اعتبار سے بامقصد اور فنی اعتبار سے دلچسپ تھئیٹر ممکن نہیں ہے۔یہیں سے اس سفر کا آغاز ہوا جو آگے چل کر ان کے منفرد اور انقلابی انداز ہدایت کاری کی پہچان بن گیا۔
مقامی زبان ان کے ہدایت کاری کے سفر میں سب سے اہم موڑ انیس سو ستر کے بعد آیا جب انہوں نے آگرہ بازار کو ایک نئے انداز میں پیش کرتے ہوئے اپنی کمپنی، نیا تھئیٹر کے فنکاروں کو، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق چھتیس گڑھ سے تھا، اپنی مقامی زبان میں مکالمات ادا کرنے کی آزادی دی۔چرنداس چور حبیب تنویر کا سب سے مقبول ڈرامہ ثابت ہوا جو تقریبا تین دہائیوں تک ہندوستان اور یورپ میں سٹیج کیا گیا۔ انتقال 8 جون2009بروز پیر بھوپال میں ان کا انتقال ہوگیا۔