قلم اور تلوارکی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہر دور میںان دو چیزوں نے ہمیشہ معاشرے میں سدھاروبگاڑ پیدا کرنے میں اہم کرادار ادا کیا ہے ۔ جب یہ دو چیزیں اچھے لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو معاشرے میں ظلم و جبراور ناانصافی کا خاتمہ لازم ہوجاتا ہے اور اگریہی دو چیزیں غلط لوگوں کے ہاتھ لگ جائیں تو پھر معاشرے کو ظلم وجبر اور ناانصافی سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔اس بات کااختیا ر صاحب تلوار کے پاس ہے کہ وہ اسے کس طرح استعمال کرتا ہے۔
تلوار اگر ظلم کے خلاف اٹھے تو تلواراٹھانے والا جہاد کرتا ہے اور اگریہی تلوار ظالم اٹھاے تو وہ قاتل کہلاتا ہے ۔تلوار اس بات سے بے خبر ہوتی ہے کہ وہ جو گلا کاٹ رہی ہے وہ کسی ظالم کا ہے یا کسی مظلوم کا۔تلوار تو بے جان ہے وہ نہیں جانتی کہ وہ جس کی میان میں ہے وہ ظالم ہے یا مظلوم لیکن یہ بات طے ہے کہ تلوار جب بھی اٹھی یا اٹھے گی کسی نہ کسی کی جان جائے گئی۔
کیسی زبردست حقیقت ہے کہ جیسے تلوار خود بے جان ہے جب کسی جاندارپرچلتی ہے تو اُسے بھی بے جان کر دیتی ہے ۔اسی طرح قلم بھی جس کے پاس ہے تو کسی کی جان لینا یا بخش دینا صاحب قلم کے اختیار میں ہوتا ہے اورقلم اس بات سے بے خبر رہتی ہے ۔صدیوں سے قلم کو صاحب شعور ودانش بڑی قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔بے شک قلم بہت طاقتور چیز ہے ۔محتر م قارئین تلوار ہو یا قلم دونوں کاصحح ہاتھوں میں رہنا معاشرے کے ، کامیاب اور روشن حال ومستقبل کے لیے لازم ومظلوم ہے ۔خاص طور پر قلم کا صاف ستھرے ہاتھوں میں رہنا بہت ضروری ہے کیونکہ جس معاشرے میں قلم غلط اور نا پاک لوگوں کے ہاتھ چلی جائے اس معاشرے کو دنیا وآخرت میں ذلیل رسوا ہونے سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی ۔ایسے معاشرے میں انصاف اور بھلائی کا پھلنا پھولنا ناممکن ہے۔
ایسے معاشرے میںانسان کی کوئی قدروقیمت نہیں رہتی جس میں صاحب قلم حوس ،حرس اور لالچ کے پجاری ہوں۔قلم ہر جگہ اتنی طاقت نہیں رکھتی کے وہ کسی کی جان لے لے لیکن جب قلم ایک عادل کے ہاتھ میں ہوتو وہ کسی مجرم کی زندگی وموت کا فیصلہ لکھتی ہے ۔یہی قلم جب اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ ملک وقوم کے لیے آئین لکھتی ہے ۔ اگر یہی قلم ایک باضمیر صحافی کے ہاتھ میں ہو تووہ حق لکھتی ہے اور صاحب قلم ملک و قوم کے لیے بہتر سے بہتر اقدامات کے راستے ہموار کرتا ہے لیکن اگر یہی قلم کسی ضمیرفروش نام نہادصحافی کے ہاتھ میں ہوتوملک وقوم کا بیڑاغرق ہوجاتا ہے ۔
آج یسے ہی چند حرس ولالچ کے پجاری ،ٹائوٹ قسم کے نام نہاد صحافیوں کی وجہ سے قلم کی حرمت پر داغ لگ چکا ہے ۔یہ سو فیصد اٹل حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں صحافت کووہ مقدس و محترم مقام حاصل نہیں رہا جو ماضی میں حاصل تھا ۔لیکن اس کے باوجود آج بھی ہر شعبہ ہائے زندگی میں صحافت کی اہمیت اورافادیت کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بلیک میلنگ اور مفادات کی تیز آندھی نے صحافت کے پیرہن کو تار تار کرکے اس کا تقدس چھین لیا ہے ۔اور معاشرے میں صحافت کی عزت وتکریم کو کم کردیا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج بھی صحافت نے معاشرے کو گندگی سے پاک کرنے کے لیے جوکردار ادا کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔مفادات کے چند غلاموں اورحرص ولالچ کے پیکروں نے جہاں صحافت کے تقدس کی سفید چادرکو داغدار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی وہیں صحافت کے تقدس واحترام کواپنا سب کچھ سمجھنے والوں اوربا ضمیر صحافیوں نے اپنی جدجہد کو مسلسل جاری رکھتے ہوئے ضمیر فروشوں ذرد صحافت کے اہل کاروں کی ناک میں دم کررکھا ہے ان ذرد صحافت کے علم برداروں کو اگر صحافتی ناسور کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔میں داد دیتا ہوں ان باضمیر قلم کاروں کوجو آج کے مشکل ترین دور میں قلم کی حرمت کو بچائے ہوئے ہیں۔
جس میں سچ لکھنے والوںکواپنی جان تک کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کوقلم کی حرمت کے پاسبان کہا جا سکتا ہے ۔یہ انہی صاحب ضمیر اور محترم صحافیوں کی محنت کا نتیجہ اور ثمر ہے کہ آج بھی حق لکھنے اور سچ بولنے والے ڈراور خوف کی دہکتی آگ میں سے نکل کرصحافت کا بول بالا کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔صحافت میں کالم نگاری ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس میں کالم نگار جہاں اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتا ہے وہیں وہ اپنے اندر کے چھپے خیروشر کی بھی واضح نشاندہی کرتا رہتا ہے اور وہ انسانوں کے لیے اپنے اندر درد کو بھی ظاہر کردیتاہے۔ ایک کالم نگار اپنی تحریر کے ذریعے معاشرے کی اچھائی کی داد دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پھیلی برائوں پر تنقید اور ان سے بچائو کے صاف ستھرے نسخہ جات بھی اعلیٰ اقتداروں سے لے کر عوام النا س تک پہنچتا رہتا ہے ۔
MA Tabassum
قارئین آج میں آپکوایسے ہی کالم نگاروں کی ایک کونسل کے بارے آگاہ کرنے جا رہا ہوں جن کا مشن ہے قلم کی اہمیت وحرمت کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچاکر معاشرے میں پھیلی برائیوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ تمام اچھے اقدام کی تعریف کر کے ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو اپنی محنت سے ملک و قوم کے لیے ترقی کا باعث ہیں ۔(کالمسٹ کونسل آف پاکستان )کے سب ممبران کا یہ فیصلہ ہے کونسل نہ تو کسی سیاسی جماعت کی ترجمانی کرے گی اورنہ ہی کسی خاص فرقے کی ہاں انفرادی طور پر کسی ممبر کو حق حاصل رہے گا کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا کسی بھی فرقے سے اپنے تعلقات رکھے۔گزشتہ دنوں صدر کالمسٹ کونسل آف پاکستان عزت مآب جناب ایم اے تبسم صاحب نے کونسل کے تمام ممبران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ کالم نگار معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کی نشاندہی اپنے قلم کے ذریعے کریں،تا کہ معاشرہ برائیوں سے پاک ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ معاشرہ میںدن بدن بے راہ روی ،کرپشن،بے روزگاری اپنے پنجے گاڑ رہی ہے جس سے نوجوان نسل خود کو ان برائیوں کی بھینٹ چڑھا رہی ہے۔جس کی نشاندہی کرنا کالم نگاروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی اصلاحی،تعمیری،تربیتی تجاویزاور خیالات کواپنے قلم کے ذریعے عوام الناس تک پہنچائیں اور کوشش کریں کہ کسی پر ذاتی تنقید کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے اپنے خیالات کو اصلاحی طرز تحریر کی صورت اجاگر کریں۔ تاکہ معاشرے میں پھیلی برائیوں پر تنقید بھی ہوسکے اور آپ کی تحریرسے عوام میں شعور بھی بیدار ہوسکے۔
ایم اے تبسم صاحب نے مزید کہا کہ آج کل کچھ کالم نگار ذاتی انا پر مبنی تحریروں کولکھ رہے ہیں جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔اور اس سے اصلاحی پہلودفن ہوتا نظر آتا ہے۔لہذا کالم نگار اپنے مفادات اور ذاتی انا کو پس پشت ڈال کر صرف عوام کو اصلاحی ،تعمیری ،تربیتی تحریروںکے ذریعے اصل مسائل سے روشناس کرائیں۔یقینااس طرح بڑی حد تک معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔بحر صورت میں تو اللہ کے حضور دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ جو کالم نگارقلم کی حرمت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے فرائض کو بخوبی انجام دے رہے ہیں اللہ انکی توفیعقات میں مذید اضافہ فرمائیں اور دیگر کو اپنی نظرِ خاص میں رکھتے ہوئے ہدایت نصیب فرمائیں۔تحریر: امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com.03154174470