حضرت عیسی یا یسوع مسیح مسیحی مذہب کے بانی اور پیشوا ہیں۔ مسیحی عقیدے کے مطابق آپ خدا کے بیٹے ہیں اور پاک تثلیث کے دوسرے اقنوم ہوتے ہوئے از خود خدا ہیں۔ آپ کو آقا، خداوند، یہودیوں کا بادشاہ، خدا کا کلمہ، ہمارا خداوند، ابن خدا، اور عمانوئیل کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام انگریزی میں Jesus یا Jesus of Nazareth یا Jesus Christ اور عبرانی میں (Yehoshua) اور آرامی عبرانی میں Yeshua مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے نزدیک نہائت مقدس ہستی ہیں۔ مسلمان ان کو اللہ کا برگزیدہ نبی مانتے ہیں اور عیسائیوں میں دو طرح کے گروہ ہیں۔
ایک جو ان کو اللہ کا نبی مانتے ہیں اور دوسرا جو ان کو تثلیث کا ایک کردار مانتے ہیں اور خدا کا درجہ دیتے ہیں۔ بعض یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہیں مگر مسلمانوں اور کچھ عیسائیوں کے مطابق اللہ یا خدا ایک ہے اور اس کی کوئی اولاد یا شریک نہیں۔
یہودی لوگ سرے سے انہیں نبی ہی نہیں مانتے بلکہ یہ بھی نہیں مانتے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔ جبکہ مسلمان اور عیسائی دونوں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام بغیر باپ کے ایک کنواری ماں حضرت مریم علیہا السلام کے بیٹے پیدا ہوئے۔
عیسائی دیانت حضرت عیسی علیہ السلام سے منسوب ہے جس کے لوگ دو ارب کے قریب ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان انہیں اللہ کے برگزیدہ نبی مانتے ہیں جن کی تعداد ڈیڑھ ارب کے قریب ہے۔ یوں دنیا کی اکثریت کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام نہائت اہم اور اللہ کے برگزیدہ لوگوں میں سے ہیں۔
عیسائی عقائد حضرت عیسی یا یسوع مسیح مسیحی مذہب کے بانی اور پیشوا ہیں۔ مسیحی عقیدے کے مطابق آپ خدا کے بیٹے ہیں اور پاک تثلیث کے دوسرے اقنوم ہوتے ہوئے از خود خدا ہیں۔ آپ کو آقا، خداوند، یہودیوں کا بادشاہ، خدا کا کلمہ، ہمارا خداوند، ابن خدا، اور عمانوئیل کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔
چنانچہ انجیلِ بمطابق حضرت یوحنا میں یوں مرقوم ہے ہ “ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا کے ساتھ تھا اور کلمہ خدا تھا، وہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ لفظ یسوع دراصل عبرانی اور آرامی لفظ یشوع سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے “خداوند نجات ہے” جبکہ مسیح عبرانی لفظ مشیخ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں “مسح کیا گیا۔
آپ کی زندگی کے بارے ہیں سب سے اہم دستاویزات چہار قانونی اناجیل یعنی بمطابق متی، مرقس، لوقا، اور یوحنا ہیں۔ یہ چاروں اناجیل کتاب مقدس بائبل کے نئے عہدنامے میں پائی جاتی ہیں۔
آپ ایک گلیلی یہودی تھے اور بیت لحم شہر میں کنواری مریم سے پیدا ہوئے۔ بچپن اور لڑکپن کا زیادہ تر عرصہ ناصرت میں صرف کیا۔ آپ اپنی اعلانیہ زندگی کے تین سال تک خداوند کی بادشاہت کی منادی کرتے رہے۔ اس ضمن میں آپ تمام فلسطین، دیکاپولس، گلیل، سامریہ اور دریائے اردن کے پار بھی گئے۔
تاہم جب یروشلیم گئے تو یہودیوں کے سردار کاہنوں، فقیہوں اور فریسیوں نے آپ پر کفر گوئی کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار کروا دیا اور رومی حاکم پینطس پلاطس کے ذریعے آپ کو صلیب پر مصلوب کروا دیا۔
آپ عہد عتیق میں خدا کی طرف سے موعودہ نجات دہندہ ہیں جو دنیا کو اس کے گناہوں سے خلاصی دلانے کی خاطر متجسد ہوئے۔ مسیح علیہ السلام کے حالات زندگی عہد عتیق میں کیے گئے وعدوں اور پیشینگوئیوں کی تکمیل ہیں۔
عیسائیت کے اکثر فرقوں کے مطابق اپنے مصلوب ہونیکے تیسرے روز آپ مردوں میں سے جی اٹھے۔ اس واقعے کو قیامت المسیح کہا جاتا ہے۔ بعد ازایں آپ اپنے شاگردوں کو چالیس روز تک دکھائی دیتے رہے جس کے بعد آپ آسمان پر چڑھ گئے تا آں کہ اپنے آسمانی باپ کے دہنے ہاتھ ابدی تخت پر براجمان ہو جائیں۔
صعود المسیح مسیحی عقیدہ کے مطابق آپ دنیا کے آخر میں اپنے آسمانی باپ کے ساتھ کمال جاہ وجلال کے ساتھ لوٹیں گے اور زندوں اور مردوں، راستبازوں اور گناہگاروں کے درمیان عدالت کریں گے۔
عیسائی فرقہ شہادت یاہوا (Jahova’s witness) ان چیزوں کو نہیں مانتے۔ ان کے عقائد کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام ایک نبی تھے اور خدا نہیں تھے۔ ان کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی نہیں دی گئی۔
ولادت اور ابتدائی حالاتِ زندگی حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے بارے میں سب زیادہ مفصل بیان انجیلِ متی اور انجیلِ لوقا میں پایا جاتا ہے۔ اگرچہ آپ کا یومِ پیدائش 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے تاہم بیشتر ماہرین کے مطابق یہ تاریخ حتمی نہیں۔ بعض محققین کے مطابق آپ کی پیدائش گرمیوں کے مہینہ جون میں ہوئی۔
تاریخوں کو معلوم رکھنے کا موجودہ نظام حضرتِ مسیح کی تاریحِ پیدائش کی نسبت سے ‘قبل از مسیح’ اور ‘بعد از مسیح’ کی اکائیوں میں ماپا جاتا ہے۔ ذکرِبالا دونوں اناجیل کے مطابق آپ کی ولادت یہودی بادشاہ ہیرودیس اعظم کے دورِ حکومت میں ہوئی۔
اناجیل کے مطابق آپ کی ولادت سے قبل خدا کے فرشتے جبرائیل آپ کی والدہ مقدسہ مریم کے حضور حاضر ہوئے تاکہ ان کو بتائیں کہ وہ عیسی علیہ السلام کی ماں بنیں گی۔
جب مقدسہ مریم نے یہ عزر بیان کیا کہ وہ مرد سے ناواقف ہیں تو حضرت جبرائیل نے جواب دیا کہ “روحِ خدا تجھ پر سایہ ڈالے گا اور تو حاملہ ہو گی۔ جس پر مقدسہ مریم نے جواب دیا ” دیکھ میں خداوند کی بندی ہوں، میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو”۔
انجیلِ لوقا کے مطابق حضرتِ مسیح کے جنم کے قریب رومی حکام نے حکم صادر کیا کہ ہر شخص مردم شماری میں اپنے نام کے اندراج کے لئے اپنے آبا کے وطن کو روانہ ہو۔ اس ضمن میں جنابِ یوسف مقدسہ مریم کے شوہر اس جوڑے کے تا دمِ زیست کوئی جسمانی تعلقات نہ تھے۔
مریم کے ہمراہ اپنے وطن بیت لحم کو روانہ ہوئے اور وہیں پر مسیح علیہ السلام کی ولادت ایک چرنی میں ہوئی کیونکہ شہر کی سرائے میں جگہ نہ تھی۔ آپ کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد “مشرق سے مجوسی” آپ کی تعظیم اور سجدہ کے لئے بیت لحم آئے۔ یہ مجوسی ایک ستارے کا تعاقب کرتے کرتے سرزمینِ مقدسہ آئے تھے۔
تاہم جب ہیرودیس کو یہ علم ہوا کہ یہودیوں کے بادشاہ کا جنم ہوا ہے تو نہایت برہمی میں اس نے بیت لحم اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں دو سال سے کم عمر کے تمام لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس پر جنابِ یوسف آپ کو مقدسہ مریم کے ہمراہ مصر لے گئے۔
کچھ سال بعد پھر خواب میں آگہی پاکر پاک خاندان واپس اپنے وطن روانہ ہوگئے اور ناصرت میں آبسے۔ یہاں پر حضرتِ مسیح پروان چڑھے اورغالبا جنابِ یوسف کے زیرِ سایہ بڑھئی کا کام سیکھا۔ اسی اثنا میں آپ نے یروشلم کے بھی دورے کئے۔
آپ کی زندگی کے اس حصے کے بارے میں ہمارے پاس سب سے کم معلومات ہیں۔غالبا آپ کی زندگی نہایت ہی معمولی رہی ہوگی۔آپ نے اس طرح اپنی زندگی کے تیس سال گذارے۔
خاندان پہلے تو یہ بات واضح ہونا چاہئیے کہ مسلمان اور عیسائی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام حضرت مریم علیہ السلام کے بیٹے تھے جو کنواری ماں بنی تھیں۔ یہودی یہ عقیدہ نہیں رکھتے اور اکثر یہودیوں نے حضرت مریم علیہ السلام پر شک کیا تھا۔
لیکن کچھ یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت مریم علیہ السلام اور یوسف کے بیٹے تھے۔ قرآن اور اسلامی روایات کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام حضرت داد علیہ السلام کی نسل سے تھے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے تھے۔
یہی کچھ لوقا کی انجیل (Gospel of Luke) میں بیان کیا گیا ہے۔ کچھ یہودی یہ شجرہ نسب یوسف کے ذریعے حضرت داد علیہ السلام تک لے جاتے ہیں۔ مگر یوسف اور حضرت مریم علیہا السلام رشتہ دار تھے اور ان دونوں کا نسب دوسری یا تیسری پشت میں ایک ہو جاتا ہے۔
قرآن نے حضرت عیسی علیہ السلام کو صرف حضرت مریم علیہا السلام کا بیٹا کہا ہے اور یہ بھی کہ وہ انبیاء کی ذریت میں سے تھے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت مریم علیہا السلام کی وساطت سے انبیا کی ذریت قرار دیا ہے۔
بپتسمہ اور آزمائیش اناجیلِ موافقہ متی، مرقس، اور لوقا کے مطابق خداوند یسوع مسیح نے اپنے رشتہ دار یوحنا اصطباغی یوحنا بپتسمہ دینے والے کے ہاتہوں بپتسمہ پایا۔ ان بیانات کے مطابق آپ دریائے اردن آئے جہاں یوحنا اصطباغی منادی اور اصطباغ کیا کرتے تھے۔ یوحنا اولا اصطباغ دینے سے کترائے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ حضرت مسیح ان کو بپتسمہ دیں۔
لیکن آپ کے کہنے پر یوحنا بپتسمہ دینے پر راضی ہو گئے۔ جب آپ پانی سے ابھرے تو”۔ آسمان کو کھلتا دیکھا اور روح القدس کو کبوتر کی مانند اپنے اوپر اترتے دیکھا۔ پھر آسمان سے آواز آئی: تو میرا بیٹا ہے المحبوب، جس سے میں خوش ہوں۔
اپنے بپتسمہ کے بعد خدا آپ کو بیابان میں لے گیاجہاں آپ نے چالیس دن اور چالیس راتوں تک روزہ رکھا متی4 باب 1-2 آیات۔ اس دوران آزمانے والا شیطان متعدد بار آپ کو آزمانے آیا لیکن ہر بار آپ نے اس کو تورات میں سے حوالہ جات سنا کر ناکام اور ناامید کر دیا۔
اعلانیہ زندگی اور تعلیمات یوحنا کی انجیل میں خداوند یسوع مسیح کی اعلانیہ زندگی کی تین فسح کی عیدوں کا ذکر کیا ہے جس سے ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ آپ کی اعلانیہ زندگی کا دورانیہ تین برس تھا۔ اس دوران آپ نے کئی اعجازات دکھائے جن میں بیماروں کو شفع دینا، پانیوں پر چلنا، پانی کو مے میں بدلنا اور کئی اشخاص کو موت کے بعد زندہ کرنا شامل ہے۔
آپ کی اعلانیہ زندگی میں آپ کے سب سے قریب آپ کے بارہ شاگرد حواری تھے۔آپ تعلیم دیتے تھے کہ دنیا کا انجام بالکل غیر متوقع طور پر ہوگا، اور کہ آپ آخری اوقات میں دنیا میں واپس آئینگے تاکہ لوگوں کے اعمال کا حساب لے سکیں۔ اس لئے آپ نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ تیار رہنے کی ہدایت کی۔
آپ کی تعلیمات میں سے سب سے مشہور “پہاڑی وعظ” ہے۔ یہ وعظ مسیحی طرزِعمل کی سب سے کلیدی دستاویز ہے۔ اسی وعظ میں مشہورِزمانہ ‘مبارکبادیاں’ بیان کی گئی ھیں۔ آپ اکثر اوقات تماثیل کا سہارہ لیا کرتے تھے مثلا اڑا پوت کی تمثیل اور بیج بونے والے کی تمثیل۔ آپ کے کلام کا مرکزی خیال خدمت، پاکدامنی، معافی، ایمان، “اپنی گال پھیرنا”، دشمنوں سے محبت رکھنا اور حلیمی ہوتا تھا۔ شریعت کے مخض دکھاوے کے لئے نفاذ کے آپ مخالف تھے۔
آپ اکثراوقات معاشرے کے رد کئے ہوئے طبقات سے تعلقات مثلا محاصل استوار کیا کرتے تھے۔ آپ کے سامریوں سے بھی مکالمات درج ہیں اگرچہ دیگر یہود ان کو غیر قوم تصور کرتے تھے۔
عیسائی عقائد کے مطابق اناجیلِ موافقہ کے مطابق ایک مرتبہ آپ اپنے تین شاگردوں یعنی پطرس، یوحنا، اور یعقوب کو پہاڑ کی چوٹی پر دعا کی غرض سے لے گئے اور یہاں آپ کی ‘تبدیلء صورت’ واقع ہوئی اور آپ کا چہرہ سورج کی مانند پر نور ہو گیا اور الیاس اور موسی آپ کے ارد گرد دکھائی دیے۔
ایک بدلی نے ان کو آ گھیرا اور آسمان سے پھر آواز آئی “یہ میرا بیٹا ہے المحبوب، جس سے میں خوش ہوں۔ تقریبا اسی زمانے میں آپ اپنے شاگردوں کو اپنی آئندہ تکالیف، شہادت اور قیامت کے بارے میں آگاہ کرنے لگے۔
گرفتاری، مقدمہ اورشہادت اناجیلِ موافقہ کے مطابق آپ اپنا آخری فسح منانے کے لئے یروشلم تشریف لائے۔ جب آپ شہر میں داخل ہوئے تو عام لوگوں کا ایک بڑا ہجوم آپ کے استقبال کے لئے اِکٹھا ہو گیااور بر ملا چِلانا شروع ہوگیا “ہوشعنا، مبارک ہے وہ جوخداوند کے نام سے آتا ہے۔
مبارک ہے شاہِ اسرائیل”۔ اس کے بعد آپ ہیکل میں حاضری دینے گئے جہاں آپ نے تاجروں کی چوکیاں الٹا دیں اور ان کو جھڑکا۔ بعد ازاں آپ نے اپنا فسح قربان کیااور اپنا آخری کھانا کھایا جس میں آپ نے پاک یوخرست کے ساکرامنٹ کی بنیاد ڈالی۔
آپ نے روٹی اور مے لی اور فرمایا ” یہ میرا بدن ہے ” اور یہ کہ “یہ میرا خون ہے جو تمہارے بلکہ بہت سے لوگوں کے گناہوں کی معافی کے لئے بہایا جائے گامیری یادگاری میں یہی کیا کرو لوقا بعد ازاں آپ اپنے شاگردوں کے ہمراہ گتسمنی کے باغ میں دعا کی غرز سے گئے۔
گتسمنی کے باغ میں حضرت مسیح کو ہیکل کی رکھوالی پر معمور سپاہیوں نے گرفتار کر لیا۔ یہ عمل رات کو راضداری کے ساتھ کیا گیا تاکہ آپ کے چاہنے والوں کو علم نہ ہونے پائے۔ یہودہ اسخریوطی جو کہ آپ ہی کا ایک شاگرد تھا، اس نے آپ کا بوسہ لے کر آپ کی نشاندہی کی کیونکہ رات کے وقت سپاہیوں کو پہچاننے میں دقت کا سامنہ تھا۔
اسی وقت شمعون پطرس، جو کہ شاگردوں میں سے سب سے برتر تھے، انہوں نے اپنی تلوار کش کی اور ایک سپاہی کا کان اڑا ڈالا، لیکن خداوند یسوع مسیح نے جنابِ پطرس کو یہ کہتے ہوئے اس کا کان بحال کیا ” جو کوئی تلوار چلائے گا تلوار ہی سے ہلاک ہوگا”۔
آپ کی گرفتاری کے بعد آپ کے شاگرد اپنی جانوں کے خطرے کے پیشِ نظر چھپ گئے۔ اناجیل کے مطابق پلاطس خود نہیں چاہتا تھا کہ آپ کو سزا ہو لیکن اس نے یہودی کاہنوں کے پرزور اصرار پر آپ کو مصلوب کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
عیسائی عقائد کے مطابق سو آپ کو کوہِ کلوری پر فسح کے دن نہایت تکلیف دہ انداز میں صلیب دی گئی۔ موت کے وقت آپ کی والدہ اور یوحنا رسول موجود تھے۔ آپ کے دو چاہنے والے یعنی یوسف رامتی اور نکودیمس نے آپ کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ پلاطس کا احکام پر آپ کی قبر کے منہ پر ایک بھاری پتھر لڑھکا دیا گیا۔
جبکہ مسلمانوں کے مطابق آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور آپ کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔ کچھ عیسائی فرقوں کے مطابق آپ کو سولی نہیں دی گئی۔ مسلمانوں کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کی موت واقع نہیں ہوئی بلکہ اللہ نے انہیں لوگوں کی نظروں سے غائب کر دیا اور ان کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔ ان کی جگہ ان کا ایک ہم شکل مصلوب ہوا۔
قیامت المسیح اور صعود عیسائی عقائد کے مطابق آپ اپنے مصلوب ہونے کے تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھے۔ متی کی انجیل کے مطابق جب مریم مگدلینی اور ‘دوسری مریم’ آپ کی قبر پر خوشبوئیں لے کر آئیں تو پتھر کو لڑھکا ہوا پایا اور قبر کو خالی پایا۔
یوں آپ چالیس روز تک اپنے شاگردوں کو دکھائی دیتے رہے جس کے بعد آپ آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ جبکہ مسلمانوں کے مطابق ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور ان کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔
حضرت عیسی علیہ السلام قرآن و حدیث کی رو سے دوبارہ آمد پر نظریات وقولِہِم ِنا قتلنا المسِیح عِیس ابن مریم رسول اللہِ وما قتلوہ وما صلبوہ ولِن شبِہ لہم وِن الذِین اختلفوا فِیہِ لفِی ش مِنہ ما لہم بِہِ مِن عِلم ِلا اتِباع الظنِ وما قتلوہ یقِینا 751)) بل رفعہ اللہ ِلیہِ وان اللہ عزِیزا حِیما ( سور النسا )
اللہ نے سور النسا کی ان آیات میں یہود کے ملعون ہونے کی کچھ وجوہات بیان کی ہیں من جملہ ان میں ہے کہ اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اللہ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسی مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لئے (کسی کو عیسی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بیشک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقینا اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انہوں نے عیسی (علیہ السلام) کو یقینا قتل نہیں کیا۔ اور اس کے علاوہ سورہ النسا میں ہے کہ وان من اہل التاب الا لیمن بہ قبل موتہ (الآی) سور النسا
اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسی (علیہ السلام ) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا، اور قیامت کے دن عیسی (علیہ السلام) ان پر گواہ ہوں گے۔
یعنی عیسی علیہ السلام کی وفات سے پیشتر جب ان کا آسمان سے نزول ہوگا تو اہل کتاب ان کو دیکھ کر ان کو مانیں گے اور ان کے بارے میں اپنے عقیدے کی تصحیح کریں گے۔
حدیث نبوی حیات ونزول مسیح علیہم السلام کے متعلق احدیث مبارکہ درجہ تواتر کو پہنچتی ہیں۔ ان احدیث کا متواتر ہونا علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب التصریح بما تواتر فی نزول المسیح میں ثابت کیا ہے۔
چند احدیث پیش خدمت ہیں وعن ابی ہریر رضی اللہ عنہ قال : ( یف انتم اذا نزل ابن مریم فیم وامامم منم (رواہ البخاری ومسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا حال ہوگا تمہارا کہ جب عیسی ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔
عن عبد اللہ بن عمر قال: قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم: ینزل عیس ابن مریم علیہ السلام ل الرض فیتزوج ویولد لہ ویمث خمسا وربعین سن ثم یموت فیدفن معی فی قبری فقوم نا وعیس ابن مریم من قبر واحد بین بی بر وعمر (رواہ ابن الجوزی فی کتاب الوفا)۔
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ زمانہ آئندہ میں عیسی علیہ السلام زمیں پر اتریں گے اور میرے قریب مدفون ہونگے۔ قیامت کے دن میں مسیح ابن مریم کے ساتھ اور ابو بکر وعمر کے درمیان قبر سے اٹھوں گا۔
عن الحسن مرسلا قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للیہود ان عیس لم یمت وانہ راجع الیم قبل یوم القیام( اخرجہ ابن ثیر فی تفسیر ال عمران) امام حسن بصری سے مرسلا روایت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہود سے فرمایا کہ عیسی علیہ السلام نہیں مرے وہ قیامت کے قریب ضرور لوٹ کر آئیں گے۔
دیگر بہت سی احدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ عیسی علیہ السلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کے امام، امام مھدی علیہ السلام ہوں گے اور عیسی علیہ السلام اس ہدایت یافتہ امام کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے۔