موسم چاہے کوئی بھی ہو سردی یا گرمی اچھا یا برا لگنے کا ا نحصار صرف زندگی پرمنحصر ہے اگر دل ودماغ اور جسم تندرست و توانا ہیں تو سبھی موسم اچھے ہیںوگرنہ سردی اچھی نہ گرمی اور نہ موسم بہار اچھا لگتا ہے ۔زندگی ایک حقیقت ہے ۔انسان زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہے ۔انسان اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعے اچھا اور کامیاب انسان بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی محنت سے زندگی کو کامیاب طریقے سے گزار سکتے ہیں ۔اس بات کی سچائی میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ محنت کرتے ہیں وہ معاشرے میں باعزت اور باوقار طریقے سے جیتے ہیں ۔لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ انسان جیسا جیسا سوچتا ہے اور کرنا چاہتا ہے زندگی میں سب ویسا ویسا نہیں ہوتا ہم رات کو یہ سوچ کرسوتے ہیں کہ صبح سویرے سیر کرنے پارک جائیں گے لیکن صبح ہونے سے پہلے ہی کسی دوست کسی عزیز کا فون آجاتا ہے کہ اس کی طبییعت خراب ہے اس لیے ہسپتال جانا ہے فورا ہی چلے آئو ۔اب رات کو سوتے وقت ہم نے یہ سوچا تھا کہ صبح سیر کرنے پارک جائیں گے لیکن قدرت کو ہسپتال جانا منظور تھا۔
مجھے لگتا ہے جیسے انسان زندگی نہیں بلکہ زندگی انسان کوگزار تی ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتوانسان اور زیادہ خود سر ہوجائے ۔انسان جو کچھ سوچتا ہے اگر سب ویساہونے لگے توپھر انسان کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی حقیقت کو تسلیم نہ کرے ۔انسان کی فطرت ایسی ہے جب دنیاوی مشکلات میں گر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرتا ہے لیکن جیسے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مشکلات کم ہونے لگتی ہیں انسان کے رابطے اللہ تعالیٰ سے کم ہونے لگتے ہیں ۔یہی انسان کے نا بالغ ہونے کی دلیل ہے ۔ جس معاشرے میں صبر کرنے کی صلاحیت نہیں اس معاشرے میں حقیقی بلوغت نہیں ہے ۔جس معاشرے میں حقیقی بلوغت ناپید ہوجائے اس معاشرے میں انسانی اقدار کی پامالی معمول بن جاتی ہے ایسے معاشرے میں انسان کی قدروقیمت کم اور نفسانی خواہشات کی زیادہ قدر ہوتی ہے ۔بلوغت دو قسم کی ہے۔
Physical puberty
جسمانی اور باطنی و حقیقی ۔جسمانی بلوغت سولہ سال کی عمر پر ہوتی ہے ۔جسمانی بلوغت سے تو سب ہی واقف ہیں ۔لیکن بد قسمتی سے حقیقی بلوغت کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں ۔بمشکل دو فیصد لوگ ہی حقیقی بلوغت کے بارے میں تھوڑا بہت جانتے ہیں ۔میرے خیال میں ذہنی و حقیقی بلوغت سے واقفیت اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ سانس لینا ۔بے شک اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے لیے آسانیاں فرماتا ہے۔ خوش قسمتی سے ذہنی فکری بلوغت کے لیے عمر کی کوئی بھی حد مقرر نہیں ہے ۔بلکہ ذہنی و فکری بلوغت خالصتا اسلامی ذہن کی تشکیل سے ہوتی ہے۔اسلام میں جسمانی بلوغت کافی نہیں بلکہ روحانی بلوغت بھی ضروری ہے ۔
بے صبری اور بے قراری تو بچپنے کی نشانیاں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان ذہنی اور فکری طور پر نا بالغ ہے ۔ذہنی طور پر نا بالغ انسان بچوں اور حیوانوں کی طرح اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے ۔اس میں ذہنی اور فکری صفات مفقود ہوتی ہیں ۔کبھی ایک اور کبھی دوسری چیز کی خواہش کرتا ہے خواہ اس چیز کی کوئی اہمیت اور حقیقت نہ ہو۔ایسے انسان میں نفسانی خواہشات کے سوا کوئی اور تقاضا نہیں ہوتا حالانکہ خواہشات کی پیروی کا انجام عارضی مسرت اوربعدازاں بربادی کے سوا کچھ نہیں ۔یہ خوشی تو جلد ہی ختم ہوجاتی ہے لیکن گناہوں کا غم طویل مدت تک باقی رہتا ہے غربت میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی بہت یاد آتی ہے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول حضرت محمدۖ نے غربت کو پسند فرمایا ہے ۔دنیا کا مال دولت انسا ن کو حق سے دور کردیتا ہے ۔دولت کے نشے میں انسان اپنے ارد گرد بسنے والے غریب لوگوں کو کم تر سمجھنا شروع کردیتا ہے ۔ خاص طور پرسود کو اسلام میں بہت زیادہ نا پسند کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں سود خوروں کے بارے میں ارشاد ہے ۔جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں )سے اس طرح (حواس باختہ )اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لیپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے)ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا)حالانکہ تجارت کو اللہ تعالی ٰنے حلال کیا ہے اورسود کو حرام( قراردیا ہے)۔تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اوروہ (سود لینے سے)باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا اور (قیامت میں )اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ۔اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں اور ہمیشہ دوزخ میں (جلتے)رہیں گے ۔سورة البقرہ:٢٧٥ اس طرح انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت نہ پسند ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو پوری کائنات کی مخلوقات سے بہتر پیدا فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اس کی اصلاح کی خاطر اپنے پیغمبر بھیجے اورآخر میں سب پیغمبروں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری کائنات کے لیے رحمت بنا کر ہماری اصلاح کے لیے بھیجا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وہ علم عطا فرمایا ہے جس کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ساری زندگی عمل کر کے واضح کردیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک سانس لینا بھی غفلت میں شامل ہے۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم خود کو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی کہتے ہیں لیکن قدم قدم پر جھوٹ بولتے ہیں ۔مسلمان اہل ایمان کی بجائے کفار کو اپنا عزیز رکھتے ہیں ۔بیگناہوں کو ناحق قتل کرتے ہیں ۔سود کا کاربار کھلے عام کرتے ہیں۔حق کی گواہی دینے سے ڈرتے ہیں۔حرام مال کماتے ہیں۔خود اعلیٰ اور دوسروںکو حقیر سمجھتے ہیں۔الغرض کہ ہروہ کام کرتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی حضرت محمد ۖ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔۔تحریر : امتیاز علی شاکر