لڑکپن میں ہمیں ما فوق ا لفطرت قصّے کہانیاں پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا ۔”آنہ لائیبریری”سے الف لیلوی داستانوں کی کتابیں کرائے پر لے کر نصابی کُتب کے اندر رکھ کر رات گئے تک پڑھنا ہمارا روزمّرہ کا معمول تھا اور امّاں بیچاری یہی سمجھتیں کہ چشمِ بد دور ”پڑھاکو بچی” بہت محنت کرتی ہے۔ہم وقت کے ساتھ ساتھ اس چوری میں اتنے شاطر ہوتے چلے گئے کہ ہمارے سیاست دان بھی کیا ہوں گے۔یہ بیچارے تو ”سر منڈواتے ہی اولے پڑے” کے مصداق اُدھر لمبا ہاتھ مارتے ہیں اور اِدھر ”عصائے افتخار” دیسی سوڈے کی بوتل کی طرح ”ٹھا ہ ٹھاہ” برسنے لگتا ہے لیکن ہم کبھی رنگے ہاتھوں تو کیا سفید ہاتھوں بھی نہیں پکڑے گئے۔
President Zardari
البتہ کبھی کبھی ایسا ضرور ہوا کہ چھوٹی بہن مناسب بھتہ نہ ملنے یا دیر ہو جانے پر ”امّاں عدالت” میں ریفرنس دائر کر دیتی لیکن ہم حکومتِ وقت کی طرح ”میں نہ مانوں” کی ایسی بُلند آہنگ رٹ لگاتے کہ امّاں بھی بے بس ہو جاتیں لیکن محض اپنا بھرم قائم رکھنے کی خاطر وہ ہمیشہ یہی کہتیں کہ ”ہمیں اپنے فیصلوں پر عمل کروانا آتا ہے”۔نہ اُن کے فیصلوں پر کبھی عمل ہوا اور نہ ہم اپنی عادت سے باز آئے البتہ وعدے وعید ضرور کرتے رہے لیکن وعدے کوئی قُرآن و حدیث تو نہیں ہوتے ۔آج کے حکمرانوں کا چلن دیکھ کر ہمیں رہ رہ کر اپنے اوپر غُصّہ آ تاہے کہ اگر ہم نے بھی سیاست میں قدم رکھا ہوتا تو کامیابی ہمیشہ قدم چومتی اور ہم ”زنجیر” نہ سہی ، چاروں صوبوں کی تقدیر تو بن ہی جاتے ۔خیر گذشت آ نچہ گذشت ، بات ہو رہی تھی الف لیلوی داستانوں کی جن میں چشمِ زدن میں نا ممکن کو ممکن کر دکھانے والا ”چراغ کا جِن” ہمیشہ ہمارا آئیڈیل رہا ۔
شعور کی پختگی کے ساتھ ساتھ جِنوں بھوتوں کا تصّور بھی باطل ہوتا چلا گیا اور ہم بھی تخیلات کی پُر شکوہ وادیوں سے نِکل کر عالمِ آب و گِل میں آتے چلے گئے لیکن اب اچانک کچھ ایسا ہوا کہ ہم چونک چونک اُٹھے ۔ہمیں یقین ہوتا چلا گیا کہ اُن الف لیلوی داستانوں میں کہیں نہ کہیں ضرور سچائی رہی ہو گی کہ اگر اِس مادی دُنیا میں ملک ریاض جیسے افسانوی اور ما فوق الفطرت کردار جنم لے سکتے ہیں تو چراغ کا جِن کیوں نہیں۔ملک ریاض جو صحافیوں ، سیاستدانوں ، جرنیلوں اور بیوروکریٹوں کو اپنی جیبوں میں بھرے پھرتا ہے ، جس کے حکمرانوں ے ساتھ بھی اتنے ہی قریبی تعلقات ہیں جتنے اپوزیشن کے ساتھ۔جو روزانہ لاکھوں غریبوں کو کھانا بھی کھلاتا ہے اور اربوں روپئے مالیت کی زمین یوں ”نُکرے” لگاتا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔جس کا حقیر ترین تحفہ بھی ”بُلٹ پروف ” گاڑی ہوتی ہے۔
جس کے خلاف سپریم کورٹ میں بیک وقت چار چار درجن کیس زیرِ سماعت ہیں پھر بھی وہ عدلیہ کو سینہ تان کر ”تڑیاں” لگاتا نظر آتا ہے اور باعثِ شرم یہ کہ اُس کی تڑیوں کو سچ ثابت کرنے والے بھاڑے کے ٹٹو بھی بہت ۔ 1985 ء سے پہلے سائیکل پر گھومنے والا وہ معمولی کلرک آج ذاتی جہاز کا مالک ہے ۔تحقیق کہ اُس کے قبضے میں کوئی جِن نہیں بلکہ وہ خود جِن ہے جو پلک جھپکتے اربوں کھربوں میں کھیلنے لگا۔البتہ میرے تصّوراتی جِن اور اِس جِن میں واضح فرق یہ ہے کہ میرا جِن چراغ کا غُلام لیکن اُس کے سبھی غلام ۔ قانونِ فطرت مگر یہی ہے کہ ہر فرعونے را موسیٰ۔اللہ تعالیٰ نے اِس دور کے فرعون کے لئے بھی موسیٰ پیدا کر دیا۔عظیم مفکر افلاطون کہتا ہے کہ بہتر ہے کہ اپنا مُنہ بند رکھو، مچھلی جتنی دیر تک اپنا مُنہ بند رکھتی ہے کانٹے میں نہیں پھنستی لیکن شاطر ریاض ملک نے مُنہ کھولا اور اپنے آپ کو ہی برباد کرتا چلا گیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ارسلان افتخار اپنے عظیم باپ کے لئے سر مایۂ افتخار نہیں باعثِ آزار پہلے بھی بنا اوراب بھی لیکن طاغوتی طا قتوں کا نشانہ ارسلان کبھی نہ تھا۔
Iftikhar Ch
یہ تو چیف جسٹس صاحب کا گھیراؤ کرنے کا ایسا مکروہ منصوبہ تھا جو اُن کی بحالی کے ساتھ ہی ایوانِ صدر میں شروع ہوا ،وزیرِ اعظم ہاؤس میں اِس کی نوک پلک سنواری جاتی رہی اور کاسہ لیس لکھاریوں کے ذریعے افواہوں کی شیطانی بھٹی میں کھولتا رہالیکن وہ سبھی بھول گئے کہ ”ربّ بہتر منصوبہ ساز ہے ”۔چیف جسٹس صاحب نے اچانک از خود نوٹس لے کر اُن کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا اور سبھی بیک زباں چلّا اٹھے کہ اس پر تو از خود نوٹس بنتا ہی نہیں ۔کیوں؟۔شاید اس لئے کہ ابھی تو بہت کچھ کرنا باقی تھا ۔پروگرام تویہ تھا کہ سرگوشیوں کی صورت میں عوام کے ذہنوں میں یہ زہر گھولاجائے کہ علامتِ انصاف افتخار محمد چوہدری دیانت کے اُس معیار پر پورا نہیں اُترتے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ۔لیکن ربّ اپنے بندوں کو کبھی رُسوا نہیں ہونے دیتا اُس خُدائے ذوالجلال نے تو اپنے بندے کا امتحان لینا بھی پسند نہیں کیا اور کچھ ایسا انتظام کر دیا کہ دُشمن خود بخود رسوائیوں کے پاتال میں گِرتا چلا گیا ۔ دُنیا نیوز پر جس طرح سے مبشر لقمان اور مہر بخاری کا بھانڈا پھوٹا اور اُن کی شخصیت کا مکروہ پہلو طشت از بام ہوا وہ ہر اینکر اور لکھاری کے لئے باعثِ ندامت ہے ۔لیکن میں اسے کسی اور زاویۂ نگاہ سے دیکھتی ہوں ۔
مجھے تو اِس میں واضح طور پر ربّ ِ کائینات کی منصوبہ سازی نظر آتی ہے ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ٹاک شوز میں وقفے کے دوران کی گئی گفتگو کی ریکارڈنگ کی گئی ہو ۔لیکن ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ وقفے کے دوران باقاعدہ سازشیں تیار کی جاتی ہوں ۔ریکارڈنگ کرنے والے اصحاب یقیناََ لائقِ تحسین ہیں جنہوں نے نتائج سے بے پرواہ ہو کر عدلیہ کے خلاف ہونے والی سازش کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ ایسے اینکرز کے اصلی چہرے بھی سامنے لائے جو چند ٹکوں کی خاطر اپنے ضمیر کا ہمہ وقت سودا کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔ہم نے انہی کالموں میں متعدد بار ایسے قلم فروشوں کا احتساب کرنے پر زور دیا لیکن نقار خانے میں تُوتی کی آواز کون سُنتا ہے۔
اس میں کچھ کلام نہیں کہ صحافت عبادت ہے بشرطیکہ مداحی ،مداہنت اور کاسہ لیسی سے پاک ہولیکن جہاں بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان کثافت میں لتھڑے ہوں وہاں کسی کے لکھے کا کون اعتبار کرے گا اور کیوں؟۔اعلیٰ عدلیہ نے تو اس ٹاک شو کا از خود نوٹس لے کر ایک بنچ بھی تشکیل دے دیا ہے لیکن نتیجہ وہی ”ڈھاک کے تین پات” ہی نکلے گاکیونکہ پاکستان میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور جتنی دیر تک ہم من حیث القوم یہ ادراک نہیں کر لیتے کہ ہماری بربادیوں کا ذمہ دار کون ہے ،ایسا ہی ہوتا رہے گا ۔ سکینڈل پہ سکینڈل بنتے چلے جائیں گے اور اصل مسائل کے ہاتھوں کوئی تیل چھڑک کے آگ لگا لے گا ،کوئی زہر کا پیالہ پی لے گا اور کوئی اپنے بیوی بچوں کو قتل کرکے خود کُشی کر لے گا ۔کتنے بُزدِل ہیں یہ خود کشی کرنے والے لوگ ۔بھئی اگر مرنا ہی ٹھہر گیا تو دو چار کو واصلِ جہنم کرکے کیوں نہ مرا جائے ۔ تحریر: پروفیسر رفعت مظہر prof_riffat_mazhar@hotmail.com