ایک عرصے سے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں کے درمیان جاری لڑئی میں بیچارے عوام ہی توپس رہے ہیں ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ عوام کو مسائل کی رسی میں جکڑکریہ سب ملک اور قوم کی کیسی خدمت کررہے ہیں…؟ یہ سمجھ سے بالاترہے.. اَب ایسے میں آج کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے کہ جو حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اداروں کی انا اور خود غرضی کی لڑائی اور عوامی مسائل سے واقف نہ ہومگر اِسی کے ساتھ ہی یہاں ہمیں بڑے افسوس سے یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسے میں ہمارے اِن ذمہ دارانِ وطن سے کوئی یہ پوچھ سکے کہ یہ اپنی مفادات کی جنگ میں ملک کے بیچارے 19کروڑ مفلوک الحال عوام کو طرح طرح کے مسائل کی دلدل میںدھنساکر اِن کو زندہ درگور کیوں کررہے ہیں…؟ اور اگراِن حالات میں عوام کا دُکھ درد محسوس کرنے والاکوئی ہے..؟ تو وہ ہمارا میڈیا ہے جو اِنہیں (حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں کو) سمجھانے اور اِنہیں عوام کے مسائل کے حل کی جانب توجہ دلانے کے لئے اپنی دن رات کوششوں میں مصروف ہے۔
تو اِسے میں یہی لوگ اِسے بھی عوامی مفادات کا دشمن کہہ کر اِس پرخودکوبلیک میل کرنے کا الزام لگاکرایک طرف کرنے کا اپنافعل شنیع کررہے ہیںیوں ایسے میںآج مسائل کی گٹھڑی کے بوجھ تلے دبے عوام کی شنوائی کہیں نہیں ہوپارہی ہے اور عوام ہے کہ اپنی دادرسی اور اپنے دُکھ کے مداوے کے لئے اپنے مسائل کی گٹھڑی کا بوجھ اٹھائے لڑکھڑاتے قدموں سے کبھی اِس دروازے تو کبھی اُس دروازے پر دستک دیتے پھررہے ہیں مگر ہمارے حکمران، سیاستدان اور ادارے ہیںکہ ابھی اِن کی ایک نہیں سُن رہے ہیں اور سب اپنے اپنے مفادات کے چکرمیں مگن رہ کراپنی اپنی لڑائی میںمنہمک ہیں اور عوام کی توجہ اپنی جانب سے ہٹانے کے لئے اِسے تواتُر کے ساتھ مہنگائی کے طوفان میں دھکیلنے اور اِسے کبھی کچھ دیرکے لئے اِس طوفان سے نکالنے اور اِس میں پھر پوری قوت سے دھکادینے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیںاَب جس کی وجہ سے عوام زندگی سے زیادہ موت کو گلے لگانے کو ترجیح دینے لگے ہیں ایسے میں عوام کے نزدیک اِنہیں مہنگائی ، بھوک و افلاس ، تنگدستی، کرپشن، لوٹ مار، قتل وغارت گری، دہشت گردی ، بجلی گیس کی صورت میں ملک آئے توانائی کے بحرانوں اور ملک کو لاقانونیت کی کھائی میں دھکیلنے والے حکمرانوں سے نجات کاصرف ایک راستہ رہ گیاہے اور وہ ہے آج ، کل پرسوں، ایک ہفتے، پندرہ دن ،ایک ماہ، تین ماہ ، چھ ماہ یا ایک سال بعد ہونے والے نئے انتخابات کا جوجب بھی ہوئے اِس میں عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے حکمرانوں کا ستیاناس کرکے رکھ دے گی اور اِس کے نتیجے میں عوام کو اپنے اِن ظالم حکمرانوں سے تو ضرور چھٹکارامل ہی جائے گا۔
Petroleum
اگرچہ رواں ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات اور سی این جی کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کے ثمرات ابھی عوام تک پہنچے ہی تھے کہ چنددنوں کے بعد ہی یکا یک یہ اعلان بھی سامنے آگیا کہ پیٹرولیم مصنوعات اور سی این جی کی قیمتوں میں چندروپے کا اضافہ کردیاگیاہے اور اِس طرح عوام کی خوشیاں ماندہ پڑگئیں اور یوںابھی عوام خود کو نئی قیمتوں میں ایڈجسٹ بھی نہیں کرپائے تھے کہ گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی کی ذرائع کے حوالے سے یہ خبربھی سامنے آگئی جس میں عندیہ دیا گیا کہ بجلی ، پیٹرولیم مصنوعات اور سی این جی کی قیمتوں میںاضافے کا امکان ہے جس کی تفصیل بتاتے ہوئے بتایاکہ بجلی کی قیمتوں میں26پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گاجس کی حتمی منظوری جلد نیپرادے گی (مگرجس کا اطلاق کے ای ایس سی پر نہیں ہوگا)کیوں کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے نیپرا کو درخواست دی ہے کہ گزشتہ ماہ ڈیزل پر تیارہونے والی بجلی کی لاگت 20روپے 33پیسے فی یونٹ اور فرنس آئل پر16روپے 49 پیسے فی یونٹ رہی اور17پیسے فی یونٹ بجلی چوری کرلی گئی یوں بجلی کی قیمتوں میں یہ اضافہ جون کے مہینے کے لئے ہوگا جبکہ امکان ہے کہ اِسی طرح 31جولائی تک طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بتدریج 7روپے تک اور سی این جی کی قیمتوں میں4روپے10پیسے سے 4 روپے20پیسے فی کلواضافے کیاجائے گایعنی یکم اگست2012کو اپنے 65 ویں یوم آزادی کے ماہ کے پہلے ہی روز عوام کواِس کے جشنِ آزادی کے موقع پر بجلی ، پیٹرولیم کی مصنوعات اور سی این جی کی قیمتں بڑھاکر حکومت مہنگائی کا ایساتحفہ دے گی جس کے بوجھ تلے دب کر قوم اپنا65واںجشنِ آزادی بنائے گی ۔
مگر آج حقیقت یہ ہے کہ عوام اور ملک کی خدمت ایک ہمارا میڈیاہی ہے جو حکمرانوں اور سیاستدانوں کے قول و فعل میں پائے جانے والے تضادات اور اِن کی وجہ سے ملک میں ہونے والی بے ضابطگیوںکی نشاندہی کرنا اپنا فرضِ اولین سمجھ کراداکررہاہے اور اِن سے عو ام اور ملک کا مقدمہ ہر فورم پر لڑتادکھائی دے رہاہے اِس کے علاوہ اگر دکھاجائے تو موجودہ حکمرانوں کے دور میں نہ تو پارلیمنٹ میں عوامی مسائل کے حل کی جانب توجہ دلاؤ قراردادیں پیش کی گئیں اور نہ ہی اِس حوالے سے ہماری اپوزیشن کی جانب سے کوئی ایسی بھر پور تحریک چلائی گئی ہے جس سے عوام میں یہ احساس پیداہوتا،کہ حکمرانوں تو نہ صحیح مگرہماری حزبِ اختلاف کو تو عوامی مسائل کا احساس ہے۔
electronic & print media
اَب اِس صُورتِ حال میں عوام اپنے حکمرانوں، سیاستدانوںاور اداروں کو چھوڑکر اپنے عوام دوست میڈیا کی جانب نہ دیکھیں تو پھراور کیا کریں …؟ اورآج یہی وجہ ہے کہ عوام کا اپنے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پراعتماد مضبوطی سے بحال ہونا ایک لازمی امر ہے کیوں کہ عوام کو اِس بات کا قوی یقین ہے کہ آج میڈیا ہی ہے جو عوامی مسائل کے حل کے خاطر حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑاہے جو عوام کے مسائل کے حل کرنے کے لئے اِن پر اپنااخلاقی دباؤ ڈالے ہوئے ہے اور آج عوام کے شابہ بشانہ کھڑاہے مگر حکمران ہیں کہ میڈیاکے ہاتھوں اپنے کرتوتوں کا گریبان چاک ہوتادیکھ کر بھی عوامی مسائل سے بے خبر ہیں اور این آر او کے ہاتھوں اپنے نیچے سے گِھسکتی اپنی اقتدار کی کُرسی کو بچانے میں لگے ہوئے ہیںجو کہ اَب یقینی طور پر کھسکنے کو ہے جس کے بعد اِن کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا…اگراُس وقت اِنہیں کوئی راستہ سجھائی دے گا تو وہ اپنے گناہوں کے ازالے اور دوبارہ اقتدار کے لئے ووٹ لینے کے لئے عوام کی دہلیز کارہ جائے گا۔ تحریر: محمداعظم عظیم اعظم