سپریم کورٹ(جیوڈیسک)سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں مختصر فیصلہ سنادیاہے.فیصلہ چیف جسٹس نے لکھا اور انہوں نے ہی پڑھ کر سنایا. فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ یہ مختصر فیصلہ ہے تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا.
فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا حامل کیس ہے . آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے . یہ انفرادی عمل تھا اداروں کا نہیں. فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ 90 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی . فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی. یونس حبیب نے 140 ملین روپے دیے . 7 ملین سیاستدانوں میں تقسیم ہوا. فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ایم آئی والوں نے غیر قانونی کام کیا. ایوان صدر میں انتخابی سیل قائم ہوا جو کہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے . صدر حلف سے وفا نہ کرے تو یہ آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے. فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ایوان صدر میں اگر کوئی سیاسی سیل ہے تو اسے فوری بند کیا جائے . اسلم بیگ اور اسد درانی فوجی کی بدنامی کا باعث بنے لہذا حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا ہے کہ ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کرے اور جن سیاسی رہنماوں نے رقم وصول کی تھی ان سے منافع سمیت رقم واپس لی جائے. فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس وقت کے صدر اسحاق خان آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں. قبل ازیں سپریم کورٹ میں اصغرخان کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی صدارت میں تین رکنی بینچ نے کی۔ اٹارنی جنرل نے آج اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدلیہ پرتنقید شروع کردی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت اس کیس کا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال کر اسے غیرمستحکم کرنا چاہتی ہے۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ عدالت نے بلوچستان کیس اور کراچی بد امنی کیس میں حکومت کو غیر مستحکم نہیں ہونے دیا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اصغرخان کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری وفاق پر نہیں چیف جسٹس اورعدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شہادتوں کے مطابق رقم ایوان صدر میں بیٹھے شخص کے ایما پرتقسیم ہوئی۔ کیا عدالت ایوان صدر کے ملوث ہونے کو نظر انداز کردے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدرکا منصب سیاسی نوعیت کا ہے۔ ان کے حلف میں سیاسی سرگرمیوں پر حصہ نہ لینے کی پابندی کا ذکرنہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر کے منصب کو ریگولیٹ کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے منصب کو ریگولیٹ کرنا آئین کا کام ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں یہ کہنے میں ہچکچاہٹ نہیں کہ بینچ میں تعصب ہے۔ انہوں نے اصغر خان کیس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر دی۔ انہوں نے کیس نیب کو بھیجنے یا کمیشن بنانے کی بھی تجویز دی اوراس کے ساتھ ہی اپنے دلائل مکمل کر لیے۔ وزارت دفاع کے وکیل ونگ کمانڈعرفان نے عدالت کو بتایا کہ آٹھ کروڑ روپے کی تفصیل آئی ایس آئی اورایم آئی سے طلب کی ہے۔ کیس پرانا ہونے کے باعث ریکارڈ کے حصول میں مشکل درپیش ہے۔