طبیب اور مصلح۔ دہلی میں 1863ء کو پیدا ہوئے۔ مورث اعلی شہنشاہ بابر کے ساتھ ہرات سے ہندوستان آئے تھے۔ اکبر کے عہد میں ان کا خاندان دربار شاہی سے وابستہ ہوا۔ اجمل خان کے والد حکیم محمود خان شاہ عالم کے طبیب خاص حکیم محمد شریف خان کے پوتے تھے۔ حکیم اجمل خان نے قرآن حفظ کرنے کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے بڑے بھائی حکیم محمد واصل خاں سے طب پڑھی اور اس علم میں اتنی دست گاہ پیدا کی کہ ملک کے طول و عرض میں مشہور ہوگئے۔ 1892 میں نواب رام پور کے طبیب مقرر ہوئے۔ 1906 میں طبی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ اسی سال مسلم لیگ کے قیام کی تائید کی۔ 1908 میں حکومت ہند نے حاذق الملک کا خطاب دیا۔
دو مرتبہ یورپ کا سفر کیا۔ 1912 میں طبیہ کالج قائم کیا اور 1920 میں جامعہ ملیہ کے منتظم اعلی مقرر ہوئے۔ کانگرس کی مجلس عاملہ نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک آپ ہی کی صدارت میں منظور کی تھی۔ 1921میں خلافت کانفرنس کی صدارت کی۔ قوم نے آپ کو مسیح الملک کا خطاب دیا تھا اور آپ دہلی کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے۔ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے۔ ملکی سیاست میں آپ کی رائے خاص اہمیت رکھتی تھی۔ سیاسی مضامین کے علاوہ طب پر کئی کتابیں تصنیف کیں۔
نامور طبیب، سیاست دان اور کل ہند طبی کانفرنس کے بانی تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور اقبال کے دوست تھے۔ شملہ وفد میں شامل تھے اور لارڈ منٹو سے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا۔ سیای مظامین کے علاوہ وہ طب پر کئی کتابیں لکھ چکیں ہیں۔ آج کا ان کے نام پر ان کے خاندان کے اجمل دوخانے پورے پاکستان میں موجود ہیں۔حکیم اجمل خان کا انتقال 1927ء کو ہوا۔
خطاب
حاذق الملک: انگریزی حکومت کی طرف سے مسیح الملک: قوم کی طرف سے