رفیق بہائو الدین الحریری لبنان کے شہر صیدون میں ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئے۔غربت کدے نے انہیں بچپن سے ہی مزدوری کی جانب راغب کر دیا اور وہ اوائل عمری ہی میں لیموں اور مالٹے کے باغ میں کام کرنے لگ گئے ۔رفیق بہائوالدین الحریری (المعروف رفیق الحریری )کو ہزار مالٹے چننے کے عوض محض 24مالٹے ملتے تھے۔بچپن میں یہی ان کا واحد ذریعہ معاش تھا جس کے ذریعے وہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کی چمٹرے کی جھونپڑی(پیٹ) کی آگ بجھاتے تھے۔لیکن نامساعد حالات میں بھی انہوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔اور پھر پارٹ ٹائم جاب کے طور پر لبنان کے اخبار ”النہار”میں بھی کام شروع کر دیا۔پھر قسمت نے انہیں اٹھارہ برس کی عمر میں سعودیہ عرب منتقل کروا دیا۔جہاں 1970میں انہوں نے ایک تعمیری کمپنی کی بنیاد رکھی اور کام کا آغاز کردیا۔قسمت ان پر کچھ اس طرز سے مہربان ہوئی کہ شاہی خاندان سے روابط بنتے اور سنورتے گئے’حتی کے وہ شاہ فہد کے رفقاء میں شمار ہونے لگے۔اور سرکاری ٹھیکے ان کی کمپنی کی جھولی میں خزاں رسیدہ پتوں کی سی رفتار سے گرنے لگے۔پھر شاہ فہد کے محل کی تعمیر نے ان کی کسنٹر کشن کمپنی کو چار چاند لگادیئے۔رفیق الحریری نے یہ محل صرف چھ ماہ میں تعمیر کرکے ریکارڈ قائم کر دیا کیونکہ اس محل کو تعمیر کے بعد دنیا میں سب سے کم مدت میں بننے والے محل کا اعزاز حاصل ہو گیا۔اس محل کی تعمیر کے بعد انہوں نے جس فیلڈ میں بھی قدم رکھا کامیاب ان کے قدم چومتی رہی ۔اُن کا شمار دنیا کے ان چند افراد میں بھی ہوتا ہے جسے سعودی حکومت نے اپنی شہریت سے نوازا۔وہ 1992میں 48سال کی عمر میں لبنانی وزیراعظم بن گئے ۔وہ 1992 سے لے کر لگا تار 2004تک بلا شرکت غیرے لبنان کے وزیر اعظم رہے ۔2004 میں انہوں نے استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو وزارت عظمی کے عہدے سے الگ کرلیا۔رفیق الحریری نے اپنی حیات میں دو شادیاں کیں ۔قدرت نے انہیں سات بچوں کی نعمت سے نوازا۔وہ بیروت میں سفر کے دوران بم پھٹنے کی وجہ سے 14فروری 2005کو عدم آباد ہو گئے۔ان کے انتقال کے موقع پر ان کے نامور فرزند سعید الحریری نے انٹرنیشنل چینل کو انٹرویودتے ہوئے کیا کہا یہ ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے۔اس سے پہلے پنجاب کی تاریخ میں خادم اعلیٰ کہلانے والے وزیر اعلی سے مخاطب ہوتے ہیں۔وزیر اعلی پنجاب نے اپنے طورپر سیلاب کے دوران انتھک محنت کی جس کا اعتراف غیرملکی پیپرز نے بھی کیا جس کا مفہوم ہے ”سیلاب کے دوران وزیر اعلی پنجاب کا گورا رنگ دوڑ دھوپ اور مسلسل کام کی وجہ سے سانولا ہوگیا”۔اس دوران انہوں نے میانوالی کو بھی اپنی خصوصی شفقت سے نوازا لیکن جناب عالی منزل ابھی بہت دور ہے۔پنجابی میں کہتے ہیںمدت ہوئی سانوں سفر کریندیاں پر یار د ا ڈیر ہ پرے تھیں پریمانا کہ آپ بہت کام کرتے ہیں لیکن وہ کام جس سے جنوبی پنجاب کی محرومیاں ختم ہوں آپ کو مسلسل کرنا چاہیئے ۔اس سے آپ کا ووٹ بینک بنے یا کم ہو مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں میرا مقصد آپ کو عوام کے سلگتے مسائل اور دہائیوں پر محیط عوامی مایوسیوں سے آشنا کرانا ہے۔بزرگ کہتے ہیں لہذا میں آج غم اور دکھ کی باتیں اپنے آبائی علاقے کی شیئر کرنا چاہوں گا ۔اور چونکہ وزیر اعلی پنجاب کی توجہ کا مرکز محکمہ صحت اور تعلیم ہیں تو ان میں سے ایک کی جانب توجہ دلوانا چاہوں گا ۔رہ گئی تعلیم تو اس کا ذکر اس مسلئے کے حل کے بعد ضرور کروں گا۔ڈب یونین کونسل کی آبادی کم وبیش30,000 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔سالانہ شرح پیدائش کم وبیش چھ سونفوس پر مشتمل ہے۔جو کہ ماہانہ پچاس زچگی کے کیسز بنتے ہیں۔جبکہ کسی بھی یونین کونسل میں تیس زچگی کیسز کی صورت میں ایم ۔این ۔سی ۔ایچ سنٹر کا اجراء لازمی ہوجاتاہے۔لیکن ان سہولیات کی عدم موجودگی میں ہونے والی زچگیوں میںتشنج ‘بچوں میں مختلف جسمانی عارضے اور مائوں کی اموات جیسے مسائل اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔کیونکہ معاشرتی وثقافتی اقدار کا خیال ان عورتوں کو باہر جانے سے روکتاہے۔جس کا خمیازہ بچہ اور ماں کو مستقبل میں ذہنی امراض’تپ دق اور دیگر پیچیدہ امراض کی شکل میں بھگتنا پڑتاہے اور خاص طور پر بچوں میں گردن توڑ بخار کی وجہ سے دل کے عارضے ‘عضاء کے ختم ہو جانے کے کیسز بہت زیادہ ہیں۔ڈاکخانہ ڈب بلوچاںسے تین کلومیٹر کے ایریا میں سات بوائزاور چھ گرلز پرائمری سکول ہیں۔جبکہ دو گرلز اور دو ہی بوائز ہائی سکول اس ایریا میں موجود ہیں(شرح خواندگی پر پھر کبھی بات کریں گے)۔لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ صحت کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔بچا کھچاایک سب ہیلتھ سنٹر تھا جسے 2004 میں بند کردیاگیا۔اور اس طرح غریب انسان کو سرمیں درد یا معمولی حرارت کی صورت میں ڈھیر سارا سرمایہ لگانے پر مجبور کر دیا گیا۔غریب کا سرمایہ تین سو روپے دیہاڑی ہی ہوتی ہے وہ بھی اگر مل جائے اور پھر اسی میں سے بچوں کا پیٹ اور باقی معاملات نبھانے ہوتے ہیں۔ابتدائی طبی امداد پرائیویٹ طور پر تو اس مفلوک الحال علاقے میں دستیاب نہیں باقی رہ گئی قریبی سرکاری سہولیات تو ان کو حاصل کرنے کیلئے کئی پا پڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ غربت کی بے رحم چکی میں پستے افراد اس کے متحمل نہیں ہوسکتے اسکی تین بڑی وجوہات ہیں ۔اول:عوامی سواری ڈاٹسن( جو اپنی ہی مرضی سے چلتی ہیں) کا ایک بجے کے بعد کوئی ٹائم روانہ نہیں ہوتا۔دوم:جان و مال کا تحفظ لاحق ہوتاہے اور تاریکی میں سپیشل گاڑی کرنے کی صورت میں کرایہ بھی سپیشل دینا پڑتاہے جو کہ بسا اوقات چھ سو روپے تک بڑھ جاتاہے۔سوم:جب تلک مریض کے گھر والوں کی جیب میںدو تین ہزار روپیہ نہ ہو ان کا مریض ایڑیا ں رگڑ رگڑ کر مر تو سکتا ہے لیکن اسے ابتدائی طبی امداد میسر نہیں آسکتی۔ ان حالات میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بنیادی مرکزصحت کی بنیادی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔لیکن تاحال گورنمنٹ آف پنجاب کی جانب سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ۔اول تو اس بی۔ایچ ۔یو کو چار دیواری کی سہولت ملنی چاہیئے اگر وزیر اعلی پنجاب یہ میسر نہیں کر سکتے تو کم از کم اسے ایڈیشنل گرانٹ دے کر چالو حالت میں تو لے آئیں۔عملہ تعینات کریں دوائیں میسر کریں۔تاکہ عوام کو کچھ سہولت تو میسر آسکے ۔ویسے توموبائل ہسپتال ہر ماہ میں ایک دن ادھر کا رخ بھی کرتاہے۔یہ اپنی طر ز کی ایک سہولت ہے لیکن اس سے میرے علاقے کے رستے زخم ہرگزجانبر نہیں ہوسکتے کیونکہ مصیبت کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتا۔اور جناب والا آپ کا مزاج بتاتاہے کہ آپ خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن نہ جانے کیسے کیسے سپیڈ بریکر آپ کی رفتار کو متاثر کردیتے ہیں۔اب سعید حریری کے انٹرنیشنل چینل کو دیئے گئے انٹرویو کی بات کرتے ہیں ۔اس انٹرویو میں انہوں نے اپنے والد کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ”میں جب یہ دنیا چھوڑ جائوں گا تومیں پیچھے دو چیزیں چھوڑ جائوں گا۔خدمت اور دولت۔میری دولت میرا کفن میلا ہونے سے پہلے میرے لواحقین میں بٹ جائے گی لیکن میری خدمت باقی رہے گی ‘اسے کوئی ختم نہیں کر سکے گا”۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سعید نے کہا کہ میرے والد کہا کرتے تھے ”دولت عارضی اور خدمت مستقل ہوتی ہے ‘دولت خرچ ہو کر ختم ہوجاتی ہے مگر خدمت خرچ ہونے کے بعد بڑھنا شروع کر دیتی ہے۔خدمت کھجور کے درخت کی مثل ہوتی ہے جو صدیوں تک پھل دیتی رہتی ہے۔ روپیہ محض کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے جو ذرا سی بوندا باندی اورآگ کی ذرا سی چنگاری سے جل کر خاکستر ہو جاتاہے”۔یہ ایک ایسے شخص کے الفاط ہیں جس کے پاس دنیا کا بااختیار ترین حاکم ہونے کا تمغہ بھی موجود تھا۔نیز دنیا کے ٹاپ دولت مند افراد کی لسٹ میں بھی اس کا نمایاںمقام تھا۔اس نے جب آنکھیں موندیں تو اس کی دولت و جائیداد لمحوں میں تقسیم در تقسیم کی منزل طے کرگئی۔لیکن اُس کی خدمت ‘فلاح وبہبود کے کام تقسیم نہ ہوسکے۔اس نے ”خدمت میں عظمت ہے” کو اپنا شعار بنا لیاتھااور اسی جذبے کے تحت حکومت بھی کرگیا۔آج شایدلبنان کے پچاس فیصد سے زائد کے لوگ اُسے محض اس کے نیک کاموں’فلاح انسانیت کے پروجیکٹ کا آغاز کرنے کی وجہ سے جانتے ہیںاور بہت ہی کم لوگ اُن کے عرصہ اقتدار اور اُس کی دولت و جائیداد سے واقف ہوں گے حالانکہ بارہ برس تک رفیق الحریری نے عنان اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے رکھی۔تو محترم خادم اعلیٰ پنجاب میرے قصبے یونین کونسل ڈب بلوچاں تحصیل پپلاں اور اس جیسے بے شمار گائوں ‘قصبے ‘محلے آپ کی توجہ کہ منتظر ہیں۔کچھ ادھر اُدھر کے لوگ بھی آپ کی خدمت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔آپ کا کوئی نہ کوئی ہیرو تو لازم ہو گا۔لیکن خدمت اور رفیق الحریری میں گہرا رشتہ ہے اس پر غور کیجئے تو یقینًا! تاریخ پنجاب میں عظیم مقام پائیں گے۔باقی لکھاری ہونے کے ناطے میں نے اپنا فرض ادا کردیا اب روز قیامت آپ ہی سے آپ کی رعیت کے بارے میں سوال ہونا ہے۔حضرت عمر کا فرمان عالیشان ہے”اگر فرات کے کنارے کتے کا بچہ بھی پیاسا مر گیا تو روز قیامت عمر اس کا جواب دہ ہو گا۔سمیع اللہ خان