ہم اور ہمارے مصالحت پسند حکمرانوں اور شیر کے مافق ڈھاڑیں مارنے والے ہمارے اپوزیشن رہنماؤں سمیت سماجی اور مذہبی جماعتوں کے کارکن گزشتہ دوسالوں کے دوران اپنے یہاں آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہوکر ا بھی اپنی کمریں بھی سیدھی بنہ کر پائے تھے کہ پچھلے دنوں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے ) کے چئیرمین ڈاکٹر ظفر قادر نے اسلام آباد میں اپنی ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں اِس بات کا برملا انکشاف کردیا ہے کہ آئندہ مون سون کے دوران پاکستان میں تاریخ کا بدترین اور بڑا سیلاب آنے کا خدشہ موجود ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے خبر نویسوں سے گفتگوکے دوران یہ المناک عندیہ بھی دے دیاہے کہ اِس سیلاب سے کم و بیش 2کروڑ 90لاکھ افراد یقینی طور پر متاثر بھی ہوسکتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ مسٹر ڈاکٹرظفر قادر نے اپنے ادارے این ڈی ایم اے کی اِس بروقت پیشنگوئی اور اِس سلسلے میں اپنے ادارے کی جانب سے تمام صوبوں اور متعلقہ اداروںکو ممکنہ تیاریوں کے لئے آگاہ کرنے کا بھی فریضہ اداکردیا ہے۔ اگرچہ اُنہوں نے اپنی اِس پریس کانفرنس میں اِس بات کا اظہار انتہائی فکرانگیز انداز میںکچھ یوں بھی کردیاہے کہ آئندہ مون سون میں ہندوکش ہمالیہ کے سلسلوں میں واقع ممالک جن میں سرِ فہرست نیپال،بنگلہ دیش، پاکستان ، چین اور بھارت شامل ہیں اِن میں تاریخ کے سب سے بڑے اور بدترین سیلاب کا خدشہ ہے ”۔
Chairman Dr Zafar Qadir
چناچہ اِس پس منظر میں ہم ہربرٹ سپنسر کا یہ قول نقل کرنا چاہیں گے کہ” یقینا جو خُوب غوروفکر کرتا ہے وہ اچھی پیشنگوئی بھی کرسکتا ہے” اور اِسی کے ساتھ ہی اَب ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ این ڈی ایم اے کے چئیرمین ڈاکٹرظفر قادر نے تو اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، سماجی اور مذہبی تنظیموں کو آئندہ مون سون میں پاکستان میں آنے والے تاریخ کے بدترین اور بڑے سیلاب کی پیشنگوئی کرکے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لئے حفاظتی اقدامات کرنے کے لئے تیار یاں کرنے کا بھی سرخ سنگل دے دیاہے ۔ یہاں ہم اتنا ضرور کہنا چاہیں گے کہ آئندہ مون سون میں پاکستان میں آنے والے اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کی اِس اعصاب شکن پیشنگوئی کے بعد بھی اگر ہمارے حکمران، سیاستدان اور دیگرادارے سنجیدہ نہ ہوئے تو پھر کیا یہ سمجھ لیاجائے کہ ہر بار کی طرح اِس مرتبہ بھی اِن سب نے آئندہ مون سون میں آنے والے بدترین سیلاب کی تباہی اور بربادی کے ہاتھوں کھلونا بننے والے مجبور وبے کس افراد کے چہرے دنیاکو دکھا دکھا کر اپنی مکروہ اورمکروفریب سے بھری سیاست کرنے کی ڈھان رکھی ہے…؟ یکدم ایسے ہی جیسے کہ گزشتہ سالوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔
Flood
اگرچہ اِس حقیقت سے انکار قطعی نہ ممکن ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے یہاں گزشتہ سالوں میں آنے والے اپنی نوعیت کے تباہ کن سیلابوں سے متاثرین کی بروقت امداد کے لئے کوئی قابلِ قدر کارنامہ انجام دیا ہے معاف کیجئے گا ہمیں یہاں یہ کہنے دیجئے کہ سابقہ دو سیلابوں میں ہمارے حکمران ہاتھ پہ ہاتھ دھرے اپنے پرائے کی امداد اور مدد کے انتظار میں ہی بیٹھے رہ گئے(جو آج بھی اِسی حالت میں ہیں) اور سیلاب اپنا کام کرتا رہا مگر افسوس کہ ہمارے بلا کی مصالحت پسند اور ہر معاملے میں افہام وتفہیم کے کلیہء عظیم کو اپنی کامیابی کا زینہ جاننے والے حکمرانوں کی نظریں اپنے ہاتھوں (ہمارامطلب یہ ہے کہ اپنے قومی خزانے جی ہاں اپنایہی قومی خزانہ جہاں سے یہ اپنی عیاشیوں اور سیر سپاٹوں کے لئے جھولیاں بھر بھر کر غریبوں کی خون پسینے سے جمع کی گئی رقموں نکالتے ہیں اِسی قومی خزانے اپنے سیلاب سے متاثرغریبوں کی مدد کے لئے رقم)پر پڑنے کے بجائے اپنے فرینڈز سمیت اُن ممالک پرزیادہ ترلگی رہی جو کسی نہ کسی حوالے سے وقتاََ فوقتاََ ہماری مددکرتے رہتے ہیں سو ہمارے حکمرانوں نے گزشتہ دوسیلابوں میں بھی اِن ہی کی جیبوں اور تجوریوں میں پڑی رقموں پر اپنی نظریں گڑائیں رکھیں جس کا نتیجہ آخری وقت تک یہ نکلا کہ نہ تو کسی دوست نے اِن کی مدد کی اور نہ ہی کوئی ایسا ظاہری ہمدرد آگے بڑھ کر ہمارے متاثرین سیلاب کی مدد کو آیاجس سے سیلاب زدگان کی دادرسی ہوپاتی۔
YousufRazaGilani
آج ہمارے تمام دوستوں اور ہمدردوں کے سامنے ہمارے اِن مصالحت پسند اور آج کے سپریم کورٹ سے قلیل مدتی سزا یافتہ حکمرانوں کا کردار تھاکہ یہ اپنی مدد آپ کچھ کرنے کے بجائے اپنے یہاں آنے والی کسی بھی قدرتی آفت اور مصیبت میں فوراً اپنے دوستوں اور ہمدردوں کی جیبوں اور لاکرز میں رکھی رقموں کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں اورشاید یہی وجہ تھی کہ پچھلے سالوں میں ہمارے یہاں آنے والے اُن دو سیلابوںکی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریوں سے سنبھلنے کے لئے کسی نے بھی ہماری کوئی مددنہ کی اور سب ہمارے حکمرانوں کو یہ سمجھاتے رہے کہ کب تک تم لوگ اپنے فرئنڈز اور ہمدردوں کی طرف دیکھتے رہو گے کبھی خود بھی تو اپنی مصیبتوں کا مقابلہ کرنا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھو مگر ہمارے مصالحت پسند مگر سست اور کاہل اِن ہی حکمرانوں نے کسی کی ایک نہ سُنی اور ا پنے پرائے غرض کے ساری دنیا سے سیلاب زدگان کی مد میں ملنے والی امدادی رقموں کے مطلوبہ اہداف کے حصول کے خاطر زیادہ تر وقت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے یاجھولی پھیلاکر بیرونِ ممالک کے دورے کرتے رہے اور جب اِس سے بھی کوئی کام نہ بنا تو پھر اپنے پرائے کوخود اپنے یہاں دوروں کی دعوتیں دے کرمتاثرین سیلاب کے پریشان حال چہرے دکھا کر امداد کی وصولی کا سلسلہ جاری رکھے رہے اور اِس کے ساتھ ہی اِس بات کابھی تہیہ کرلیاکہ کل تباہ کاری سے دگنی رقم کی وصولی تک سیلابی پانی کو سمندر میں نہیں گرنے دیا جائے گا ۔
flood
آج بھی ایک طرف سیلاب سے تباہ حال متاثرین بے سروسامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں تو وہیں سیلابی پانی بھی ہمارے حکمرانوں سے چیخ چیخ کر یہ فریاد ضرور کررہا ہے کہ خدا کے واسطے مجھے سمندر میں گرنے کا راستہ تو دو…دیکھو آج تمہارے یہاں مون سون کا تیسرا بدترین سیلاب سر پر آن پہنچا ہے اور اے پاکستانی حکمرانوں…! تم نے ہمیں بھی قید کر رکھا ہے… کیوں ہم کو اپنی سیاست کی نظر کررہے ہو ہم جتنی مدت کے لئے آئے تھے ہمیں اتنے عرصے میں تباہی مچا کر سمندر میں جانا تھا مگر ظالموں تم نے تو ہمیں بھی لٹو بنا ڈالا ہے اور ہم کو سمندر میں گرنے سے روک رکھا ہے …حالانکہ بقول این ڈی ایم اے کے چئیرمین ڈاکٹر ظفر قادر نے جو پیشنگوئی آئندہ مون سون میں پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متعلق کردی ہے اَب پاکستانی حکمرانوں اور تمام صوبوں اور متعلقہ اداروں کو اِس سے بچاؤکی ممکنہ تیاری سنجیدگی سے کرنی ہوگی ورنہ …ورنہ سب تباہ ہوجائے گا اور کوئی مدد کو نہیں آئے گا۔
NATO Supply
ہاںالبتہ …! آئندہ مون سون میں اپنے یہاں آنے والے سیلاب اور اِس کی تباہی سے بچاؤ کا ایک طریقہ یہ ضرور ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے حوالے سے ایک امریکی اخبار نے جو یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ پاکستان کے زمینی راستوں کے ذریعے ہر روز جو 6 سو کنٹینر افغانستان جائیں گے اور اِن کے بدلے امریکا پاکستان کو یومیہ 10لاکھ ڈالر کی جو رقم دے گا ہمارے حکمران اِنہیں اپنی عیاشیوں اور اِدھر اُدھر کے اپنے سیر سپاٹوں اور کھیل کود میں خرچ کرنے کے بجائے اِن رقموں کو پچھلے سیلابوں کے متاثرین اور آنے والے سیلا ب سے بچاؤ اور اَس کی بتاہی سے سیکورٹی کے اقدامات کے خاطر اٹھا رکھیں اور جون میں جو مہنگائی کا طوفان لئے بجٹ پیش کیا جارہا ہے اِس میں اپنی مفلوک الحال عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کا اعلان کریں اور ملک سے توانائی جس میں سرفہرست بجلی اور گیس کے بحران ہیں اِس کے خاتمے کے لئے دیرپا اقدامات کریں تو کوئی بات بنے تو ٹھیک ہے اور راقم الحرف سمیت ملک کے 19کروڑعوام جو آج نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف ہیں یہ کہہ اٹھیں کہ ہمارے حکمرانوں نے نیٹو سپلائی کی بحالی کا فیصلہ ملک اور قوم کی زبوحالی کو دور کرنے کا ایک تاریخ ساز قدم اٹھایا ہے اور نیٹوسپلائی کی بحالی سے ملک کو نیٹو کے 48ممالک سے جو رقم وصول ہورہی ہے ہمارے حکمران اِس رقم کو ملک کے حالات ٹھیک کرنے اور قوم کا معیار زندگی صحیح معنوں میں بہتر کرنے کے لئے خرچ کررہے ہیں اور اگر پھر بھی ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنی مصالحت پسندی کی آڑ میں نیٹوسپلائی بحال کی اور ملک کے غریب عوام کے بنیادی مسائل سمیت آنے والےسیلاب کی تباہ کاریوں کی روک تھام کے لئے کچھ نہ کیاتو پھر سمجھو کہ ہمارے حکمران ہی …..ہیں۔