خدا وندانِ جمہور سے
Posted on May 8, 2012 By Adeel Webmaster شکیب جلالی
shakeb jalali
عروس صبح سے آفاق ہمکنار سہی
شکستِ سلسلئہ قیدِ انتظار سہی
نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ
شفق کا رنگ شہیدوں کی یادگار سہی
بکھرتے خواب کی کڑیوں کو آپ چُن دیجیے
کیا تھا عہد جو ہم نے وہ پائیدار سہی
ہجومِ لالہ و ریحاں سے داد چاہتے ہیں
یہ چاک چاک گریباں گلے کا ہار سہی
گنے جو زخم رِگ جاں، شریک جشن حیات
پیے جو ساغرِ زہراب بادہ خوار سہی
چمن میں رنگِ طرب کی کوئی کمی نہ رہے
ہمارا خونِ جگر غازئہ بہار سہی
تھکن سے چور ہیں پائوں، کہاں کہاں بھٹکیں
ہر ایک گام نیا حسنِ رہ گزار سہی
سکوں بدوش کنارا بھی اب اُبھر آئے
سفینہ ہائے دل و جاں بھنور کے پار سہی
شکیب جلالی