بر صغیر پا ک وہند میں محکمہ ریلوے کو متعارف کرا نے کا سہرا انگر یزوں کے سر ہے جنھوں نے اپنے دور حکومت میں اسے ایک قابل قدر ادارہ بنا یا عوام کے لیے اس دور کی بہتر سفری سہو لتیں بہم پہنچا ئی اس وقت جب کہ پا کستا ن کو قا ئم ہو ئے سا ٹھ بر س سے زائد کا عرصہ گز رچکا ہے ہم سب جا نتے ہیں کہ آج بھی انگریزوں کے زما نے کی بچھا ئی ہو ئی اسی فی صد پٹریا ں ہی زیر استعمال ہیں جن کی مدت پوری ہو ئے ایک عر صہ ہو چکا ہے وہ تو بھلا ہو انگریز سر کا ر کا کہ ان کے زما نے میں اتنی بد عنوانی اور کر پشن عروج پر نہیں پہنچی تھی ورنہ یہ پٹریا ںبھی کب کا داغ َمفا رقت دے چکی ہو تیں کہ ہما رے زما نے کے پل اور سڑکیں ایک سال سے پہلے ہی اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں تو بھلا ان پٹریوں کی کیا اوقات ہے انگر یزوں نے جہا ں بر صغیر میں ریل گا ڑی کے سفر کو متعا رف کر ایا وہا ں ان ادیبوں اور لکھا ریوں کے لیے ایک اچھوتے سفر کی کہا نیوں کو لکھنے کا مو ضوع بھی عطا کیا اسی لیے جب ہم اس زما نے کی لکھی گئی کتا بوں میں ریل گا ڑی کے سفر کی داستا ں پڑ ھتے ہیں تو یو ں محسوس ہو تا ہے کہ مصنف اسے ایک فکشن سفر کے طور پر اپنی کہا نیوں کی زینت میں چا ر چا ند لگا رہے ہیں آج کے جد ید دور میں کیا ترقی یا فتہ اور کیا تر قی پذیر تقر یبا تمام مما لک ما سوائے پا کستا ن ریل کی ضرورت و اہمیت سے آگا ہ ہے انڈیا ا اور بنگلہ دیش جیسے مما لک میںبھی و ہاں کی حکو متوں نے محکمہ ریلوے میں خا صی ترقی کہ اور اسے جد ید تقا ضو ں سے ہم آہنگ کیا ہے وہا ں کے لوگ ذا تی گا ڑیوں کے بجا ئے ریل گا ڑیوں میں سفر کو تر جیح دیتے ہیں لیکن یہ ہما ری بد قسمتی ہے کہ ہما رے تمام سو ل ادارے بحران کا شکار ہیں۔ و طن عز یز اس وقت ز لزلے کی سی کیفیت سے دو چا ر ہے ہر روز ایک نئی خبر ایک نئی کہا نی اس کے اندر چھپے ہو ئے منا فقین کو اگل رہی ہے کبھی اسٹیل مل دیوا لیہ کی صورت میں کبھی پی آئی اے کر پشن کی شکل میں اورکبھی جعلی ڈگر یوں میں ایسا لگتا ہے کہ ملک عز یز کے یہ کر دار اورادارے عوا م کے سامنے بے نقا ب ہو نے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جا نے کی دوڑ میں شا مل ہیں۔ اس نئے طو فان میں شا مل ایک نیا طوفانی مسئلہ محکمہ ریلو ے ہے جس کے با رے میں کہا جارہا ہے کہ اسے تین ارب رو پے سے زائد خسا ر ے کاسامنا ہے وجو ہا ت کا ذکر کر تے ہو ئے و فا قی وز یر ریلوے غلا م ا حمدبلو ر نے فر ما یا کہ ” ہما رے پا س انجن کی کمی ہے٥٠٠ میں سے ٣٠٠ نا کا رہ حا لت میں ہیں جب کہ با قی انجنو ں کی حالت بھی زیا دہ تسلی بخش نہیں کچھ پتہ نہیں کہ کب بند ہو جا ئے محکمہ ریلوے کے پا س صرف دو دن کا تیل مو جود ہ ہے اگر مزید تیل دستیاب نہ ہوا تو ریل گا ڑیاں بند ہو جائیں گی یہی حالا ت رہے تو محکمہ ریلو ے بھی بندہو جا ئے گا ۔ انھوں نے مز ید کہا کہ اس وقت محکمہ ریلو ے سے ایک لا کھ ملازمین وابستہ ہیں اس محکمہ کے بند ہو نے سے وہ بے روز گاری کا شکا ر ہو جا ئیں گے” ْْْْْْْْْْْْْقیام پا کستا ن کے کچھ عر صے بعدتک محکمہ ریلوے کی کا رکر دگی بہتر رہی مگر بعد کے سا لوں میں اس کا معیا ر بد سے بد تر ہو تا گیا سو ائے کرا یہ بڑ ھا نے میں ترقی کر نے کے’ ا س نے مزید کو ئی تر قی نہ کی ۔پا کستا ن ریلو ے کا ما ٹو ” رفتا ر ، خدمت ،حفا ظت ”ہے مگر بد قسمتی سے اب پا کستا ن ریلو ے اپنے ما ٹو کا ضد بن چکا ہے ۔ قیا م پا کستا ن کے بعد ریل گا ڑ یا ں بھا پ سے چلتی تھیں زما نے میں تر قی کے ساتھ سا تھ بھا پ کی جگہ ڈیز ل ، کو ئلہ نے لے لی جب ریل گا ڑیا ں بھا پ سے چلتی تھیں تو بھی کر اچی سے لا ہو ر آنے کا سفرچو بیس گھنٹوں میں طے ہو تا تھا اور آج بھی زما نے کی تر قی کے بعد چو بیس گھنٹے میں طے ہو تا ہے ( یہ ہے اس کی رفتا ر ) ہم سب کا یہ مشا ہدہ ہے کہ ٹر ینیں با رہ گھنٹے سے آٹھ گھنٹے تک لیٹ ہو نا معمو لی با ت ہے مسا فر گھنٹو ں اسٹیشن پر دھو پ ،با رش سردی گر می ہر مو سم میں انتظار کی کو فت اٹھا تے ہیں اس پر متزاد یہ کہ ریل میں کو ئی سہولت مسافروں کے لیے موجو د نہیں ہو تی ا س خو اری اور بے آ رامی کو ریلو ے ڈکشنر ی میں خدمت کا نام دیا گیا ہے ریلو ے محکمے نے حفا ظت کے نا م پرا نجن کو اسکر یپ میں تبدیل کرکے، بلیک میں ٹکٹس فر و خت کر کے ، ٹائر وں اسپیئر پا رٹس اور حتیٰ کہ پٹر یا ں تک فر وخت کر نے کا جو حفا ظتی کا ر نا مہ سر انجام دیا ہے اسے کہا جا سکتا ہے کہ حفاظت صر ف اپنی ، خدمت صر قیام پاکستا ن کے کچھ عر صے بعدتک محکمہ ریلوے کی کا رکر دگی بہتر رہی مگر بعد کے سا لوں میں اس کا معیا ر بد سے بد تر ہو تا گیا سو ائے کرا یہ بڑ ھا نے میں ترقی کر نے کے’ ا س نے مزید کو ئی تر قی نہ کی پا کستا ن ریلو ے کا ما ٹو ” رفتا ر ، خدمت ،حفا ظت ”ہے مگر بد قسمتی سے اب پا کستا ن ریلو ے اپنے ما ٹو کا ضد بن چکا ہے ۔ قیا م پا کستا ن کے وقت ریل گا ڑ یا ں بھا پ سے چلتی تھیں زما نے میں تر قی کے ساتھ سا تھ بھا پ کی جگہ ڈیز ل ، کو ئلہ نے لے لی جب ریل گا ڑیا ں بھا پ سے چلتی تھیں تو بھی کر اچی سے لا ہو ر آنے کا سفرچو بیس گھنٹوں میں طے ہو تا تھا اور آج بھی زما نے کی تر قی کے بعد چو بیس گھنٹے میں طے ہو تا ہے ( یہ ہے اس کی رفتا ر ) ہم سب کا یہ مشا ہدہ ہے کہ ٹر ینیں با رہ گھنٹے سے آٹھ گھنٹے تک لیٹ ہو نا معمو لی با ت ہے مسا فر گھنٹو ں اسٹیشن پر دھو پ ،با رش سردی گر می ہر مو سم میں انتظار کی کو فت اٹھا تے ہیں اس پر متزاد یہ کہ ریل میں کو ئی سہولت مسافروں کے لیے موجو د نہیں ہو تی ا س خو اری اور بے آ رامی کو ریلو ے ڈکشنر ی میں خدمت کا نام دیا گیا ہے ریلو ے محکمے نے حفا ظت کے نا م پرا نجن کو اسکر یپ میں تبدیل کرکے بلیک میں ٹکٹس فر و خت کر کے ، ٹائر وں اسپیئر پا رٹس اور حتیٰ کہ پٹر یا ں تک فر وخت کر نے کا جو حفا ظتی کا ر نا مہ سر انجام دیا ہے اسے کہا جا سکتا ہے کہ حفاظت صر ف اپنی ، خدمت صر ف اپنی ۔ قیام پا کستان کے دیگر اداروں کی طر ح ا س محکمہ کی بھی بدقسمتی ہے کہ اکثریت ا یسے لو گ بھر تی کیے گئے جنھوں نے اسے دونوں ہا تھو ں سے لو ٹا اس با ت کی قطعی پروا کئے بغیرکہ اس اداراے سے انھیں رزق ملتاہے اس کے افسروں اور کا رکنو ں نے اسے دیمک کی طرح اندر ہی اندرکھوکھلا کرنااپنا فرض اولین سمجھا ایک ایسی بھی خبر آئی کہ ایک ریلو ے ملا زم کے گھر سے پو را انجن بر آمد کیا گیا اس محکمہ کو نفع بخش ادارہ نہ سمجھتے ہو ئے کسی فو جی یا جمہوری حکو مت نے بھی اس پرکو ئی خاطرخواہ تو جہ نہیں دی اپنی ساری تو جہ کرا یو ں کے اضافوںپر مر کو ز رکھی ۔٢٠٠٧ میں ٢٥ ْ فیصد ٢٠٠٨ میں٠ ٣ فی صد کرایوں میںاضافہ کیا گیا عوام گوا ہ ہیں کہ جب ریل گا ڑ ی کا سفر کر نا ہوتوآپ کو ٹکٹیں کئی کئی دن قبل بک کر وانی پڑ تی ہے بصور ت دیگر یا تو مہنگے دا موں خر ید نا پڑ تا ہے یا پھر سرے سے ملتا ہی نہیں ٹر ینیں مسا فروں سے کچھا کھچ بھری نظر آتی ہیں مگر اس کے با و جود کئی عشروں سے خسارے کا رونا سنتے آرہے ہیں جس کی وجہ سے ایک ساتھ چودہ ٹر ینیں بند کی گئی ریلو ے کے ٦٧ سے زیا دہ رو ٹس بھی بند کیے جا چکے ہیں ۔وزیر اعظم کے خصو صی مشیر رضا ربا نی کہنا ہے کہ” ریلو ے کے ٧٦ روٹس کی بند ش کے بعد اس کی نج کا ری کے با رے میں راستہ ہموار کیا جا رہا ہے اس نجکا ری کے ذر یعے اسے اونے پو نے دا موں فر وخت کی صورت میں عمل میں لا ئی جا ئے گی جو ایک قومی ادارے کے ضیا ع کا با عث بنے گا ” ان کے اس بیان کی عملی تصویر اس وقت وزیر ریلوے کا بیان ہے کہ محکمہ ریلو ے کے پا س صرف دو دن کاا یند ھن رہ گیا ہے نہ اس کے پا س کو ئی فنڈ ہے جس سے مز ید ایند ھن خر یدا جا سکے کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت اور ادارے کے چند مخلص اور ایما ندار کا رکن سا منے آئیں اور اسے خلو ص دل سے دوبا رہ اپنے پیروں پر کھڑ ا کر نے کی کو شش کر یں اس میں مو جو دکا لی بھیڑ و ں کو نکا ل با ہر کر یں بلکہ ان کا سختی سے احتسا ب بھی کریں جوآئندہ کے لیے ایک مثال قا ئم ہو ریلو ے انجنوں سے لے کر اسے اسکر یپ کی صورت میں ڈ ھا لنے والو ں ، جعلی ٹکٹس بیچنے والو ں سب کا سختی سے احتسا ب ہو نا چاہیے ۔وطن عز یز اس وقت جن بحر انوں کا شکا ر ہے اس سے نمٹنے کے لیے اس سے بہتر کو ئی حل نہیں۔ ریل گا ڑی کا سفرپا کستا ن کی غریب عوام کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر جا نے کے لیے ایک ہی ذریعہ ہے عوام اسی سفر کو ترجیح دیتے آئے ہیں عوام سے یہ ذریعہ ختم کر انے بجا ئے ا س کی اصلا ح کی طر ف تو جہ دینی چا ہیے ا سے ایک قومی ادارہ سمجھ کر ایما نداری اور خلو ص نیت سے اسکی اصلا ح کی ضرورت ہے اس کے خسا رے اور نقصانا ت کی خبروں کے بعد اسے اونے پو نے داموںفرو خت کرنے کا راستہ ہموار کر نے کی کوششیں نہ کی جا ئے تو بہتر ہے۔ تحریر : عینی نیا زی