اگر اس معاملے کو جلد بازی میں حل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے سنگین نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں
پاکستان کی وزارت داخلہ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس سے کہا ہے کہ وہ قرآنی قاعدہ جلانے کے مقدمے میں گرفتار ہونے والی عیسائی لڑکی رمشا کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت کریں۔
وزارت داخلہ نے اسلام آباد پولیس سے مزید کہا ہے کہ اس واقعہ کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد کو بھی فی الوقت گرفتار نہ کریں۔
وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انٹیلیجنس بیورو اور اسلام آباد پولیس کے ادارے سپیشل برانچ کی جانب سے بھیجی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رمشا کی ضمانت ہونے کی صورت میں اس کی اور اس کے اہلخانہ کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔
اہلکار کے مطابق رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ رمشا جیل میں زیادہ محفوظ ہے اس لیے جب تک یہ معاملہ مکمل طور پر حل نہیں ہوجاتا اور لوگوں کے جذبات ٹھنڈے نہیں پڑتے اس وقت تک ملزمہ کو جیل میں ہی رکھا جائے۔
اہلکار کے مطابق ان رپورٹس میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ اگر اس معاملے کو جلد بازی میں حل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے سنگین نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔
ان رپورٹس کے بعد وزارت داخلہ کے ذمہ دار افسران کی جانب سے اسلام آباد پولیس کے اعلی حکام کو زبانی احکامات جاری کیے گئے ہیں اور اسلام آباد پولیس کے حکام اس کی تصدیق یا تردید نہیں کر رہے۔
اسلام آباد پولیس کے پراسکیوشن محکمے کا ایک انسپکٹر اٹھائیس اگست کو رمشا کی ضمانت کی درخواست کی پیروی کے لیے عدالت میں پیش ہوگا۔ تاہم اس مقدمے کی تفتیشی افسر منیر حسین جعفری کا کہنا ہے کہ انہیں ضمانت کی درخواست پر عدالت کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں ملا۔
اس واقعہ کے بعد اسلام آباد پولیس کے افسران بھی انتہائی محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور اس معاملے پر میڈیا سے بھی بات چیت کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔
پولی کلینک ہسپتال کی انتظامیہ کو اس ضمن میں ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کو کہا گیا ہے جس کا اجلاس ستائیس اگست کو ہوگا۔ اس بورڈ کے سامنے رمشا کو بھی پیش کیا جائے گا۔ یہ بورڈ ایک ہفتے کے اندر اندر اپنی حتمی رپورٹ پیش کر دے گا۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل فراست علی خان
یاد رہے کہ اسلام آباد پولیس نے سولہ اگست کو قرآنی قائدہ جلانے کے الزام میں گیارہ سالہ عیسائی لڑکی رمشا کو گرفتار کرکے انہیں اڈیالہ جیل بھجوا دیا تھا جبکہ رمشا کے والدین کو حفاظتی تحویل میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق رمشا کے والدین اگرچہ پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں لیکن ان کی حفاظت کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تعینات ہیں۔
پولیس نے اس واقعہ سے متعلق ایک ابتدائی رپورٹ بھی وزارت داخلہ کو بھجوائی ہے جس میں ملزمہ کی ذہنی حالت سے متعلق سوالات اٹھائے گئے ہیں جبکہ اس کے کمسن ہونے کا بھی زکر کیا گیا ہے۔
اس ابتدائی رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ رمشا پڑھ لکھ نہیں سکتی اور یہ کہ انہوں نے دوران تفتیش قرآنی صفحات کو جلانے کا بھی اعتراف کیا ہے۔
دوسری طرف اسلام آباد کی انتظامیہ نے ملزمہ رمشا کی ذہنی حالت اور اس کی عمر کے تعین کے لیے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل فراست علی خان نے بتایا کہ پولی کلینک ہسپتال کی انتظامیہ کو اس ضمن میں ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کو کہا گیا ہے جس کا اجلاس ستائیس اگست کو ہوگا۔ اس بورڈ کے سامنے رمشا کو بھی پیش کیا جائے گا۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل کے مطابق یہ بورڈ ایک ہفتے کے اندر اندر اپنی حتمی رپورٹ پیش کر دے گا۔
یاد رہے کہ قرآنی قاعدہ جلانے کے واقعہ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف پولیس نے مقدمہ تو درج کیا ہے تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
مقامی پولیس کے مطابق مظاہرین میں زیادہ تعداد پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی تھی۔ اس واقعہ کے خلاف مظاہرین نے نہ صرف کشمیر ہائی وے کو بلاک کردیا تھا بلکہ پتھرا کر کے گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔