بر طانوی سکریٹری خارجہ ولیم ہیگ نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں ان افرادکو خراج تحسین پیش کیا ہے جو خواتین کے انسانی حقوق کے فروغ کے لئے کام کرہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ خواتین کا عالمی دن ہمارے اس عہد کی تجدید کادن ہے جو ہم نے دنیا بھر کی خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے، ان کی تعلیم اور انہیں آگے بڑھانے کے لئے کررکھا ہے۔میں ان تمام افراد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو خواتین کے حقوق کے فروغ کے لئے کام کررہے ہیں، انہیں اکثر خطرناک حالات میں کام کرنا پڑتا ہے اور ان کے کام کی اکثرو بیشتر قدربھی نہیں ہوتی۔ میں ان باہمت خواتین کو خاص طور سے داد دیتاہوں جنہوں نے عرب بہار میں کردار ادا کیا ہے۔خواتین کے حقوق اور حقوق انسانی برطانوی خارجہ پالیسی کا مرکز رہیں گے۔ ان ملکوں میں جہاں خواتین کے حقوق تسلیم نہیں کئے جاتے ہم چاہتے ہیں کہ یہ حقوق انہیں ملیں اور ان ملکوں میں جہاں یہ حقوق تسلیم کئے گئے ہیں وہاں ان پربامعنی طور پرعملدرآمد کیا جائے۔ کوئی بھی ملک صرف ایک صنف کی صلاحیتوں کے بل پر اپنے مسائل پرتوجہ نہیں دے سکتا۔ کوئی معاشرہ اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے آدھے شہریوں کے حقوق غصب کئے جاتے رہیں۔
کسی تنازع کا پائیدار حل نہیں نکل سکتا جب تک خواتین کی ضروریات کی تکمیل نہ کی جائے۔بین الاقوامی طور پر ہم عالمی مسائل کا منصفانہ اور مساوی حل پانے کی امید نہیں کر سکتے جب تک کہ خواتین کی ہر سطح پر شمولیت نہ ہو۔چنانچہ برطانیہ دنیا بھر میں خواتین کی قیادت اور شرکت کی حمایت کے لئے عملی اور بامعنی انداز میں کام کرتا رہے گا۔انسانی حقوق کے وزیر جیریمی براؤن نے کہا کہ عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف امتیاز اور تشددانسانی حقوق کی پامالی کا ایک ایسا مسئلہ ہے جو وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ اسی لئے اس سے نمٹنا برطانیہ کے لئے ترجیحی درجہ رکھتا ہے اور صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے ہمارے کام میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ جب تک تشدد اور امتیازی سلوک ختم نہیں ہوگا۔
عالمی سلامتی اوترقی کے لئے ہماری کوششیں کمزور پڑتی رہیں گی جس سے دنیا بھر میں لاکھوں عورتوں اور لڑکیوں کی زندگی متاثر ہوگی۔ہم خواتین کے حقوق کے عالمی سطح پر فروغ اورخواتین اورلڑکیوں پرتنازعات کے اثرات میں کمی کے لئے اختراعی منصوبوں میں تعاون کا عزم رکھتے ہیں۔ بر طانوی سکریٹری خارجہ ولیم ہیگ اور انسانی حقوق کے وزیر جیریمی براؤن کے خواتین کے عالمی دن پر بیان نے جہان خواتین کے حقوق لیئے کام کر نے والے اداروں کو حوصلہ دیا ہے وہاں ان علاقوں میں بسنے والی خواتین اور بچیوں کو بھی امید کی کرن نظر آئی ہے جہان خواتین کو حقوق حاصل نہیں۔ ان ممالک خواتین کے حقوق کی زیادہ خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں جہاں نا خوا ندگی کی شرح زیادہ ہے۔ پاکستان میں بھی خواتین کے حقوق سلب ہورہے ہیں ۔
غیرت کے نام پر قتل، جبری شادیاں،ونی ،سوارا، وٹہ سٹہ کی شادیاں، کم عمری کی شادیاں، گھریلو تشدد،سسرال میں جلانا،تیزاب سے جلانا،تعلیم کے حصول پر پابندی وغیرہ ان خواتین کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور وہ اپنے حقوق کس طرح حاصل کر سکتی ہیں۔ ایسے علاقوں میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جو بھت مشکل کام ہے۔ انڈیا میں اس وقت جو چیز خوفناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے وہ ہے لڑکیوں کا پیدا ہونے سے پہلے قتل انڈیاکے بعض علاقوں میں خواتین کی تعداد اتنی کم ہے کہ لڑکوں کو شادی کرنے کے لئے دلہن کی تلاش بہت دور دور تک کرنی پڑتی ہے۔ریاست پنجاب اس سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ یہاں دس لڑکوں کے مقابلے میں صرف آٹھ لڑکیاں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اس غیرمتناسب شرح کی وجہ یہ ہے کہ یہاں لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔اس معاشرتی ترجیح کی وجہ سے پیدائش سے قبل بچوں کی جنس معلوم کرنے اور بچیوں کو پیدائش سے پہلے ہلاک کرنے (رحم کشی) کا رواج چل پڑا ہے۔
اس طرح ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں لگ بھگ دس لاکھ سے زائد جنسی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔بھارت میں والدین لڑکیوں کو سر پر ایک بوجھ سمجھتے ہیں، اس لئے نہیں کہ شادی کے وقت جہیز دینے کی فکر ہوتی ہے بلکہ اس لئے بھی کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نسل لڑکوں کے ذریعے چلتی ہے۔ ہندو مذہب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ والد کے آخری رسوم بیٹا ادا کرتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ طبی معائنے یعنی الٹراساؤنڈ کے ذریعے پیدائش سے قبل بچوں کی جنس معلوم کرنا دیہاتوں میں عام بات ہوگئی ہے اور اگر اس روِش کو نہیں روکا گیا تو لگ بھگ سات ملین لڑکیاں آئندہ دو عشروں میں ماری جائیں گی۔
آزادی اور حقوق کا نظریہ ہے جس کے تمام انسان یکساں طور پر حقدار ہیں۔اس نظریہ میں وہ تمام اجزا ء شا مل ہیں جس کے تحت کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان یکساں طور پر بنیادی ضروریات اور سہولیات کے لحاظ سے حقوق کے حقدار ہیں۔ آفاقی فلسفہ میں انسانی حقوق اس طرح ہمیشہ سے بنیادی ضرورت رہتے ہیں اور حقوق کے حصول کے لیے کسی بھی خطے یا معاشرے میں انسانی اخلاقیات، انصاف، روایات اور قدرتی طور پر سماجی عوامل کا مضبوط اور مستحکم ہونا ضروری ہے۔
انسانی حقوق کے نظریے کو اسی وجہ سے یا تو معاشرتی طور پر عوامی رائے اور قومی و بین الاقوامی قوانین کی مدد سے نافذ کیا جاتا ہے۔تعریف کی رو سے انسانی حقوق ایک وسیع مضمون ہے، اور اس بارے اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ خصوصی طور پر ایسے کونسے حقوق ہیں جو کہ انسان کا بنیادی حق مانے جائیں، یا رد کر دیے جائیں۔ خطوں، معاشروں اور ترقی کے اعشاریہ کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات اور حقوق کی اشکال تبدیل ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ موضوع دنیا بھر میں ہر وقت بحث اور اختلافات کے ساتھ ساتھ تنقید کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خواتین کے حقوق سلب کون کر رہا ہے ۔ان کو حقوق کون دے سکتا ہے اور کون ان کے حقوق کیلیئے آواز اٹھا سکتا ہے وہ اور نہیں بلکہ اسی کی کوکھ سے جنم لینے والا مرد ہے۔ تحریر : ممتاز احمد بھٹی