ایک آدمی دوسرے سے پوچھتا ہے یہ خوشی کیا ہوتی ہے؟ وہ جواب دیتا ہے مجھے کیا معلوم میری تو کم عمری میں ہی شادی ہو گئی تھی۔ خوشی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کی تلاش میں ہر انسان سرگرداں دکھائی دیتا ہے۔ نیو اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام خوش ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور دنیا کے خوش ممالک کی فہرست میں یہ ملک امریکا اور بھارت کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ خوشی اور غم زندگی کی وہ کیفیات ہیں جو ہر انسان پر یکے بعد دیگرے طاری ہوتی رہتی ہیں۔ ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے اور اس کی ساری زندگی خوشی حاصل کرنے کی تگ و دو میں گزر جاتی ہے مگر اس کمبخت کی مثال اُس تتلی کی سی ہے جو دیکھنے میں تو خوبصورت ہوتی ہے لیکن بڑی مشکل سے ہی پکڑائی دیتی ہے۔ آج کل پاکستان میں لاقانونیت، کرپشن، لوٹ مار، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اور ٹارگٹ کلنگ کا جو بازار گرم ہے ایسے میں یہ سروے رپورٹ طبقہ امراء کی حد تک تو ٹھیک ہے البتہ ملک کے عام عوام کو یہ ایک انہونی سی بات لگتی ہے۔
پاکستانی عوام سے خوشی ایسے دور بھاگتی ہے جیسے گھروں سے بجلی، گیس اور پانی غائب رہتا ہے البتہ کبھی کبھار عوام کے چہروں پر اس کے آثار ضرور دکھائی دیتے ہیں اور وہ بھی عین اُس وقت جب اُن کا چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے پالا پڑتا ہے۔ اگر یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی ڈھونڈنے سے نہ ملیں تو پھر اس قوم کو اس حد تک کمال حاصل ہے کہ گنڈیری کے رس کی طرح غم سے بھی خوشیاں نچوڑ لیتی ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے نہال ہو جاتے ہیں اوراس کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ بڑی خوشیوں نے ایک عرصہ سے منہ نہیں دکھایا۔ کہتے ہیں زندگی میں کسی بڑی خوشی کو پانے کیلئے چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے رہنا چاہئے۔ بڑی خوشیاں ملک کے دگرگوں حالات سے ناراض ہو کر کہیں دور چلی گئی ہیں اور معلوم نہیں کب واپس آئیں البتہ آج کل عوام چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر ہی گزارا کر رہے ہیں بلکہ یہ چھوٹی خوشیاں اس حد تک جمع کر رکھی ہیں کہ اب انہوں نے اسے کاروبار کی شکل دے کر ”خوشیاں برائے فروخت” کا بورڈ بھی آویزاں کر دیا ہے۔ مثلاً بازار سے خریداری کے بعد زندہ گھر واپس آنے کی خوشی، مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد خودکش حملے سے بچ جانے کی خوشی، گھنٹوں غائب رہنے کے بعد کچھ دیر کیلئے بجلی آنے کی خوشی، بس میں دھکم پیل کے بعد سیٹ مل جانے کی خوشی، پٹرولیم مصنوعات میں دس روپے اضافہ کے بعد پچاس پیسے کمی کرنے کی خوشی، بس سے اُترتے وقت موبائل اور بٹوہ جیب میں موجود ہونے کی خوشی، اپنا شہر ڈرون حملوں والے علاقے سے دور ہونے کی خوشی، مسجد سے نکلتے وقت چپل مل جانے کی خوشی، اپنے شہر، محلے یا علاقے کا سیلاب سے محفوظ رہ جانے کی خوشی۔
بات صرف اِدھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی اس طویل فہرست میں مشرف کے جانے کی خوشی، زرداری کے آنے کی خوشی، گیلانی کے جانے کی خوشی، راجہ پرویز اشرف کے آنے کی خوشی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ آج کل کے دور میں خوشیاں مشکل سے ہی ملتی ہیں اور اس طرح کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں جمع کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس خوشیاں منانے کیلئے بہت کچھ ہے لیکن پھر بھی ہم اس پر دھیان نہیں دیتے۔ یہ خوشیاں جمع کرنے اور پھر خوشیاں برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کرکے اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنے پر پیارے وطن پاکستان کے سیاست دانوں کو بھی دعائیں دینا مت بھولیئے گا کہ جن کی سخت محنت کے صلے میں ہی ایسی خوشیاں نصیب ہوئی ہیں۔ ہم قسم اُٹھاتے ہیں یہ بے چارے سیدھے سادے قابل احترام، عزت مآب جناب زرداری صاحب کے خلاف خفیہ سازش نہیں ہے بلکہ ماضی کے ہر حکمران نے عوام تک ایسی ڈھیر ساری خوشیاں پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ہم بھولے عوام حکمران تو چُن لیتے ہیں مگر ناشکرے اس قدر ہیں کہ اُن کی فراہم کردہ خوشیوں پر دھیان ہی نہیں رہتا۔ ایک برطانوی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بڑھاپا اپنے ساتھ خوشیاں لے کر آتا ہے۔
عام خیال تو یہی ہے کہ آدمی کو اپنا بچپن خوشیوں سے بھرپور لگتا ہے اور جوانی امنگوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے مگر نئی ریسرچ کے مطابق ہم جیسے جیسے بوڑھے ہوتے ہیں خوشیوں کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شاید اسی خوش فہمی میں ساری پاکستانی قوم وقت سے پہلے ہی بوڑھی ہوتی جا رہی ہے اور پھر معصوم عوامی نمائندوں کو اس بڑھاپے کا مورد الزام ٹھہرانا یقینا ناانصافی ہوگی۔ پاکستان ایسا منفرد ملک ہے جہاں ”پیزا” پولیس اور ایمبولینس سے پہلے پہنچتا ہے۔ زرعی ملک ہے اس لئے چاول سو روپے کلو اور موبائل سِم مفت ہے۔ جوتے ایئر کنڈیشنڈ دکانوں میں اور کھانے کی سبزیاں فٹ پاتھوں پر بِکتی ہیں۔ لیموں کا مصنوعی کیمیکل کھانا پکانے کے واسطے اور اصل لیموں برتن دھونے کے صابن میں استعمال ہوتا ہے۔
Najeem Shah Logo
اصلی ڈگری ہولڈر ذلیل و خوار جبکہ جعلی ڈگریاں رکھنے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ آخر میں ایک لطیفہ پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ صرف انسان ہیں نہیں بلکہ دوسری مخلوق بھی کتنی خوش ہے۔ ایک آدمی نے دریا سے مچھلی پکڑی اور خوش خوش گھر آیا۔ دیکھا تو بجلی بند۔۔۔ گیس بند۔۔۔ تیل بھی ختم۔۔۔ واپس گیا اور مچھلی کو دریا میں پھینک دیا۔ مچھلی خوشی سے اُچھل کر پانی سے باہر آئی اور نعرہ لگایا ”جیو حکمرانو !۔