دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
Posted on June 4, 2012 By Adeel Webmaster مرزا غالب
sad man
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گنہگار ہوں، کافر نہیں میں
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہوں میں
غالب وظیفہ خوار ہو، دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
غالب