داغ
Posted on July 23, 2012 By Adeel Webmaster علامہ محمد اقبال
daagh dehelvi
عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوند زمیں
مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں
توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر
چشم محفل میں ہے اب تک کیف صہبائے امیر
آج لیکن ہمنوا! سارا چمن ماتم میں ہے
شمع روشن بجھ گئی، بزم سخن ماتم میں ہے
بلبل دلی نے باندھا اس چمن میں آشیاں
ہم نوا ہیں سب عنادل باغ ہستی کے جہاں
چل بسا داغ آہ! میت اس کی زیب دوش ہے
آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے
اب کہاں وہ بانکپن، وہ شوخی طرز بیاں
آگ تھی کافور پیری میں جوانی کی نہاں
تھی زبان داغ پر جو آرزو ہر دل میں ہے
لیلی معنی وہاں بے پردہ، یاں محمل میں ہے
اب صبا سے کون پوچھے گا سکوت گل کا راز
کون سمجھے گا چمن میں نالہ بلبل کا راز
تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
اور دکھلائیں گے مضموں کی ہمیں باریکیاں
اپنے فکر نکتہ آرا کی فلک پیمائیاں
تلخی دوراں کے نقشے کھینچ کر رلوائیں گے
یا تخیل کی نئی دنیا ہمیں دکھلائیں گے
اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی
سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے، صاحب اعجاز بھی
اٹھیں گے آزر ہزاروں شعر کے بت خانے سے
مے پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے
لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خواب جوانی! تیری تعبیریں بہت
ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون ؟
اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیر کون ؟
اشک کے دانے زمین شعر میں بوتا ہوں میں
تو بھی رو اے خاک دلی! داغ کو روتا ہوں میں
اے جہان آباد، اے سرمایہ بزم سخن
ہوگیا پھر آج پامال خزاں تیرا چمن
وہ گل رنگیں ترا رخصت مثال بو ہوا
آہ! خالی داغ سے کاشانہ و اردو ہوا
تھی نہ شاید کچھ کشش ایسی وطن کی خاک میں
وہ مہ کامل ہوا پنہاں دکن کی خاک میں
اٹھ گئے ساقی جو تھے، میخانہ خالی رہ گیا
یادگار بزم دہلی ایک حالی رہ گیا
آرزو کو خون رلواتی ہے بیداد اجل
مارتا ہے تیر تاریکی میں صیاد اجل
کھل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں
ہے خزاں کا رنگ بھی وجہ قیام گلستاں
ایک ہی قانون عالم گیر کے ہیں سب اثر
بوۓ گل کا باغ سے، گلچیں کا دنیا سے سفر
علامہ محمد اقبال