زمین سے چاند اور چاند سے زمین خلامیں معلق نظر آتی ہیں ۔جسے آپ جہنمی سمجھتے ہیں یقینا وہ بھی آپ کو جنت کا حقدار نہیں گردانتا۔اپنے آپ کو سلطان کے لقب سے ملقب کرنے والا شاہ محمود چھبیس برس کی عمر میں 387ہجری میں تخت پرمتمکن ہوا۔اس نے سلطنت اپنے بھائی اسماعیل سے جنگ کے بعد حاصل کی جوکہ ایک اچھا حاکم ثابت نہیں ہواتھا۔اور جنگ جیت جانے کے بعد ابن خلدون کے مطابق اس نے اپنے بھائی کو بھی حکومت میں شامل رکھا۔
بغداد کے دربارخلافت سے بھی اسے غزنی اورخراسان کی سند عطاء ہوئی جس پر خوشی کا اظہارکرتے ہوئے اس نے کفار ہند پرحملہ کرنے کی تدبیر سوچی اوراسے نبھاتا بھی رہا۔تزکیہ نفس کی خاطر قرآن مجید لکھتا رہتا۔اس کے دور حکومت میں شاعری کا باقاعدہ ایک محکمہ قائم تھا۔فارسی کا مشہور ومعروف شاعر فردوسی اسکے علاوہ عنصری’سجدی’اسدی’فرخی اورمنوچہری بھی اس کے دربار سے منسلک اپنے فن میں طاق شاعرتھے۔ہرفن کے اہل کمال لوگ اس کے دربار کی رونق کو چار چاند لگاتے رہے۔بیرونی جو ریاضی ‘سنسکرت اور تاریخ کا بڑا عالم تھا اسی کے خوان کرام سے فیض یاب ہوتا۔فاریابی جسے بلاشبہ فلسفہ میں معلم ثانی گنا جا سکتاہ ے اسی کے حلقہء مصاحب میں شامل تھا۔
فردوسی جو سلطان کا درباری شاعر تھا ‘اسکے حوالے سے الزام لگایا جاتا ہے کہ سلطان نے اسے شاہنامہ کے ہرشعر لکھنے کے بدلے ایک اشرفی عطاء کرنے کاوعدہ کیاتھالیکن اپنی بات پر قائم نہ رہا۔یہ الزام تصوراتی دنیاکاہی ایک تخلیقی معمہ ہے جیسے آج کل ملال ہے ملالہ کا(شاید لالہ کااور لالہ جی کون ہیں؟آپ جانتے ہیں)۔وگرنہ شاہنامہ کی بنیاد تو فردوسی (اصل نام حسن بن اسحاق) نے اپنے وطن طوس میں 365ہجری میں رکھی جب اسے ایران کے بادشاہوں سے متعلق تاریخی سرمایہ اسکے ہم وطن نے طوس میں اسکے حوالے کیا۔جبکہ محمود نے اسکے بیس برس بعد اقتدارسنبھالا۔محمود ایک انصاف پسند ‘رقیق القلب ‘منصف مزاج اور علم کی قدر کرنے والاانسان تھا۔تاریخ اسے بت شکن کے لقب سے یاد کرتی ہے۔محمودہرجنگ سے پہلے نماز ادا کرتا ‘دعامانگتا اور پھرحملہ کرتا۔جیساکہ قنوج پرحملہ کرتے وقت سلطان کی فوج میں ایک لاکھ سپاہی تھے جبکہ راجہ کی فوج میں تیس ہزار سوار اور پانچ لاکھ پیدل فوج تھی۔سلطان نے جھولی رب کے آگے پھیلادی ‘لفظ پر تاثیرتھے ۔جب صبح ہوئی تو شہرسنسان تھا۔بغیر جنگ کیئے قنوج فتح ہوچکا تھا۔سلطان راجہ کوملااور تخت اسے دے کرلوٹ گیا۔
سلطان محمود غزنوی کہ دور حکومت میں ایک فریادی آپ کے پاس آیا اور استدعاکی کہ ایک شخص میرے گھرآتا ہے اور مجھے گھرسے نکال کر بے عزت کرتاہے۔ایک روایت کے مطابق میری عزت بھی پامال کرتاہے۔وہ آپ کا عزیز ہے۔سلطان نے کہا جب وہ آئے تو مجھے خبر دینا۔پھر ایک دن فریادی آیاکہ وہ ظالم میرے گھرمیں ہے۔سلطان اس کے ساتھ ننگی تلوار لے کرروانہ ہوا۔مکان پر پہنچ کر کہاچراغ گل کر دو۔چراغ کے گل ہوتے ہی سلطان نے اندر جاکر اس مجرم کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔چراغ جلایاگیاتو سلطان نے روٹی طلب کی تو جوسوکھی روٹی میسر تھی ‘کھائی اور شکراداکیا۔فریادی نے چراغ بجھوانے کے عمل اور سلطان کی بھوک دیکھ کرسوال کیاکہ کیاماجراہے۔تومحمود گویاہوا”جب تم میرے پاس فریاد لے کرآئے تھے اسوقت سے اب تک کچھ نہیں کھایا تھا۔دوم: چراغ اس لیئے بجھانے کو کہا کہ مجھے خدشہ تھاکہ کہیں یہ مجرم میرا قریبی عزیزنہ ہواور اسے دیکھ کر میرے دل میں رحم نہ آئے۔اور شکراس لیئے ادا کیاکہ وہ میرا قریبی عزیزنہیں تھااور میں انصاف بھی کرچکاتھا۔
ایک دفعہ ایک عورت نے علاقے میں ڈاکہ زنی کی شکایت کی تو سلطان نے کہا علاقے کی وسعت کی وجہ سے نظام نہیں سنبھالاجاتا تو نڈر عورت نے جواب دیا:اگرنظام نہیں سنبھال سکتے تو پھر علاقے کو اپنے زیر تسلط کیو ں رکھاہواہے۔سلطان شرمسارہوا’بڑھیاکوراضی کیا اور اس علاقے کا ایسانظام کیا کہ پھر وہاں بدامنی نہ پھیل سکی۔وزیر اعلی پنجاب نے اپنے داماد کی کیس میں مدد نہ کرکے ایک قابل ستائش قدم اُٹھایاہے۔لیکن اب دیکھنایہ ہے کہ وہ بھی چراغ گل کرتے ہیں یانہیں ۔اور بڑھیاکہ سوال کا کیاجواب دیتے ہیںاور پھر بڑھیاکے سوال کے بعد کتنے’کیسے اور کس طرز کے اقدام اُٹھاتے ہیں ؟؟؟کیونکہ تاریخ کے سینے پرجگرکا خون دینے والے ہی سنہرے حروف میں نام لکھواسکے ہیں ۔وگرنہ تاریخ میں امیرتیمور پربھی کئی کتابیں لکھیں گئیں جس نے 58ممالک کو فتح کیا’چار ہزار شہرجلاکرراکھ کئے اور 71سال بعدمرگیا’تاریخ کے صفحات پر توچنگیز خان بھی موجودہے جسے قاتل اعظم کہنا بھی دروغ گوئی نہیں ‘ اس نے 84لاکھ افراد کی جانیں لیں لیکن 65سال کی عمرمیں زندگی نے اسکے ساتھ بھی دغا کیا’حجاج بن یوسف نے خانہ کعبہ پرسنگ باری کروائی’اصحاب کو شہید کیا لیکن 52سال کی عمرمیں کسمپرسی کی حالت میں اسکی زندگی کی سانسیں بھی اختتام پذیرہوئیں ‘اسی تسلسل کی غم زدہ ترین تصویر سیدالشہدا کربلا کی قربانی ہے ‘یزید نے اقتدار کی خاطر محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے پر ظلم وستم کے پہاڑتوڑدیئے’وہ بھی حق وباطل کی جنگ کے تین سال بعد مرگیا’ تاریخ نے یزید کو بھی اپنے صفحات میں جگہ دی’مگر امام عالی مقام کودلوں میں جگہ ملی ‘حسینیت کا آج بھی پرچار ہوتا ہے۔
امیرتیمور’حجاج’چنگیز یہ سب ہمیشہ کی موت مرچکے ہیں لیکن پیام حق آج بھی زندہ ہے۔توجو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں نے تاریخ رقم کردی انھیں بتانا چاہتا ہوں تاریخ میں جگہ ملنے سے انسان زندہ نہیں رہتابلکہ دلوں میں جگہ پانے والے ابدی حیات جیتے ہیں اور سنہرے لفظوں میں تاریخ رقم کرجاتے ہیں۔زمین سے چاند اور چاند سے زمین خلامیں معلق نظر آتی ہیں ۔جسے آپ جہنمی سمجھتے ہیں یقینا وہ بھی آپ کو جنت کا حقدار نہیں گردانتا۔