دوبئی (طاہر منیر طاہر)محترمہ بے نظیر بھٹو شھید کی پانچویں برسی 27 دسمبر 2012 کو منائی جا رہی ہے ، نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کا ھر وہ ملک جھاں پاکستانی آباد ہیں اور جھاں پیپلزپارٹی کے یونٹس موجود ہیں وھاں حسب سابق اس بار بھی برسی کے موقع پر خصوصی تقریبات کا اھتمام کیا جا رہا ہے۔
ساڑھے آٹھ سالہ جلا وطنی کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کا قیام دوبئی متحدہ عرب امارات میں رھا۔ ابتدائی دور میں بے نظیر بھٹو دوبئی کے پوش علاقہ جمیرا میں مقیم رہیں بعدازاں دوبئی کے ہی ایک اور پوش ایریا طلال الامارات میں منتقل ہو گئیں۔ جلا وطنی کے ایام میں بے نظیر بھٹو کا رابطہ اپنے پارٹی کارکنوں سے مسلسل رھا۔ اس دوران وہ پاکستان تو نھیں گئیں لیکن پارٹی میٹنگز کے سلسلہ میں ان کی آمدورفت دوئی ، لندن اور امریکہ رہی۔ پارٹی لیڈران سے بھی ان کی اھم ملاقاتیں دوبئی اور لندن میں ہوئیں جبکہ تاریخی اھمیت کی حامل ملاقاتیں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کے ساتھ لندن میں ہوئیں جھاں وہ “میثاق جمھوریت” پر بے نظیر بھٹو نے دستخط کئے۔
پاکستان میں بحالی جمھوریت کے سلسلہ میں بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 کو دوبئی سے پاکستان گئیں جبکہ 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ کے بعد گاڑی میں روانہ ہوتے وقت کسی سنگدل قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔ بے نظیر بھٹو کی شھادت کی خبر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ھر ملک میں انتھائی دکھ کے ساتھ سنی گئی۔ نہ صرف پیپلز پارٹی کے کارکن اور جیاے روئے بلکہ پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور عوام پاکستان نے بھی رنج و غم کا اظھار کیا۔ 27 دسمبر 2012 کو بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی ہے، ان پانچ سالوں کے دوران پی پی پی کے کارکنوں نے ان کی عدم موجودگی کو کیسا محسوس کیا اس بارے اُن لوگوں کے خیالات رقم کئے جا رھے ہیں جن کا رابطہ جلا وطنی کے عرصہ کے دوران بے نظیر بھٹو سے مسلسل رھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی دوبئی کے راھنماء محمد راشد چغتائی اور مسز راشد چغتائی نے اس موقع پر اظھار رائے کرتے ہوئے کھا کہ بے نظیر بھٹو کے انتقال سے ھمارے سر سے سایہ اُٹھ گیا ہے اور ھم بے یارو مددگار ہو گئے ہیں۔ ان کے چلے جانے سے سیاست میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نھیں ہو سکے گا۔ بے نظیر بھٹو اعلیٰ صلاحیتوں کی مالک خاتون تھیں وہ ھر وقت پاکستان اور پاکستان کے غریب عوام کے بارے سوچتی تھیں اور غریب عوام کا زکر کرتے ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ وہ چاھتی تھیں کہ پاکستان میں غریب کے حالات بھتر ہو جائیں۔ بے نظیر بھٹو میں برداشت اور تحمل بھت تھا۔ راشد چغتائی نے ایک بات یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب ھم بے نظیر بھٹو کے ھمراہ پاکستان جا رہے تھے تو ناھید خان کی موجودگی میں بے نظیر بھٹو نے مجھ سے کھا کہ چغتائی صاحب کیا آپ میری حفاظت کے لئے پاکستان میرے ساتھ جا رہے ہیں۔
Rashid Chughtai
مسز راشد چغتائی نے بتایا کہ دوبئی میں قیام کے دوران بے نظیر بھٹو متعدد بار اُن کے گھر تشریف لائیں۔ بے نظیر بھٹو سے ان کی ذاتی اور خاندانی مراسم تھے۔ بے نظیر بھٹو جب بھی ان کے گھر آتیں تو بچوں میں گھل مل جاتیں۔ عورتوں کو گلے لگا کر ملتیں اور ان کا منہ ماتھا چومتیں ، بچوں کو گود میں بٹھا لیتیں۔ اتنی عظیم خاتون ہونے کے باوجود اُنھوں نے کبی بڑے پن کا احساس نہ ہونے دیا۔ ایک موقع پر جب شیری رحمٰن اور عزرا زرداری ان کے ھمراہ میرے گھر میں موجود تھیں تو بے نظیر بھٹو نے کھا کہ اس گھر میں آ کر مجھے گھر کا سکوتن ملتا ہے اور اپنے ہی گھر کا احساس ہوتا ہے۔ مسز راشد چغتائی نے کھا کہ بے نظیر بھٹو واقعی بے نظیر تھیں ، اللہ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند کرے۔ دوبئی میں عرصہ دراز سے موجود پی پی پی کے دیرینہ کارکن پرنس اقبال گورائیہ نے بتایا کہ بے نظیر کے ساڑھے آٹھ سالہ قیام کے دوران اُنھیں بے نظیر بھٹو سے ملاقات کا شرف کئی بار نصیب ہوا ہے۔ پرنس اقبال کا کھنا ہے کہ بے نظیر بھٹو ایک ذھین و فطین خاتون تھیں۔ آپ جس کو ایک بار دیکھ لیتیں اُس کو ھمیشہ یاد رکھتیں۔ پرنس اقبال نے کھا کہ چند ہی ملاقاتوں کے بعد بے نظیر بھٹو نے اُنھیں نام سے پکارنا شروع کر دیا اور ھر ملاقات پر نام سے بلا کر حال امول پرچھا۔ پرنس اقبال نے کھا کہ ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹو نے اُنھیں کھا کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال مرحوم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے شھید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی SZABIST مشاعرہ کا اھتمام کیا جائے۔ پرنس اقبال نے کھا کہ بے نظیر بھٹو ھر کارکن کے ساتھ عزت سے پیش آتیں اور انتھائی مشفقانہ انداز میں گفتگو کیا کرتی تھیں۔ اُن کا کھنا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی وفات سے کارکن یتیم ہو گئے ہیں اور ان کا ثانی ملنا نا ممکن ہے۔
پی پی پی لیڈیز ونگ کی عھدیدار ڈاکٹر ثمین چودھری کے اعزاز میں حاصل ہے کہ اُنھوں نے بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو کو انتقال کے بعد غسل دیا ہے۔ڈاکٹر ثمینہ چودھری نے بتایا کہ نصرت بھٹو کے انتقال سے دو روز قبل بے نظیر بھٹو ان کے خواب میں آئیں اور انھیں گلے لگایا۔ وہ یہ خواب سمجھ نہ پائیں لیکن دو روز بعد جب نصرت بھٹو کو غسل دے رہی تھیں تو انھیں خواب سمجھ میں آیا۔ ڈاکٹر ثمینہ چودھری کا کھنا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی مثال آپ تھیں ان کی شھادت سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے وہ پورا ہوتا نظر نھیں آتا۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے عالمی لیڈر تھیں جس کا اعتراف سب کرتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی امارات کے راھنماء قیصر زمان گھمن کا کھنا ہے کہ جتنا عرصہ بھی بے نظیر بھٹو دوبئی میں رہیں اس دوران ان کی متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ بے نظیر بھٹو ایک سحر انگیز شخصیت کی حامل خاتون تھیں۔ قیصر زمان گھمن نے ایک یاد تازہ کرتے ہوئے کھا 2006 کا وہ دن میں کبھی نھیں بھول سکتا جب بے نظیر بھٹو کے جمیرا والے گھر میں اُن کی ملاقات بے نظیر بھٹو سے ون ٹو ون ہوئی۔ اُنھوں نے کھا کہ میں وہ لمحات نھیں بھول سکتا جب اتنی بڑی شخصیت ان کے سامنے تھی اور اُن سے مخاطب تھی۔ قیصر زمان گھمن کا کھنا ہے کہ بے نظیر بھٹو ایک قابل شخصیت تھیں وہ ہر سیاسی داؤ پیچ سے واقف تھیں اور ھر معاملے کو بطریق احسن سلجھانے کی اھلیت رکھتی تھیں۔ اُن کی ھر کارکن کے ساتھ جزباتی وابستگی تھی اور ھر ایک سے منفرد انداز کا تعلق تھا۔ ان جیسا لیڈر شاید اب کبھی نہ ملے ۔ وہ واقعی بے نظیر تھیں۔
سردار جاوید یعقوب ایڈوائزر حکومت آزاد کشمیر ، پیپلز پارٹی امارات کے متحرک کارکن ہیں وہ بے نظیر بھٹو سے اپنے جزباتی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے کھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو عالمی لیڈر تھیں۔ نہ صرف اپنے بلکہ بیگانے بھی ان کی قابلیت کا اعتراف کرتے تھے۔ سردار جاوید یعقون نے کھا کہ بے نظیر بھٹو ملاقات کے دوران ھماری سیاسی تربیت بھی کرتی تھیں وہ ایک سمجھدار پختہ سیاسی شعور رکھنے والی خاتون تھیں۔ جنھیں زمانہ یاد کرتا ہے اور ان کی مثال دیتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 23 اکتوبر 2012 کو نصرت بھٹو کی برسی کے موقع پر ان کی ملاقات بلاول بھٹو اور بختاور بھٹو سے ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں بچوں نے فرش پر بیٹھ کر کارکنوں سے ملاقات کی ، حال اموال پوچھا اور درپیش مسائل کا جائزہ لیا۔ سردار جاوید یعقوب نے کھا کہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی تربیت کا اثر ان کے بچوں میں بخوبی نظر آتا ہے اور وہ کارکنوں کا احترام کرتے ہیں۔
Samina Choudhry Bakht Awer Bilawal Bhutto
پی پی پی لیڈیز ونگ کی کارکن شیریں درانی نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو ایک مسحور رکن شخصیت تھیں۔ وہ ستاروں کے جھرمت میں چاند کی طرح لگتی تھیں۔ شیریں درانی کا کھنا ہے کہ بے نظیر بھٹو سے اُن کی پھلی ملاقات اچانک سٹی سنٹر دیرہ کی لفٹ میں ہوئی۔ ملاقات کے موقع پر کافی باتیں ہوئیں اور جب میں نے کھا کہ آپ مجھے بھت اچھے لگتی ہیں اور میری لیڈر ہیں تو بے نظیر بھٹو نے میرا کندھا پھتپھتاتے ہوئے کھا کہ یہ سب آپ کی مجھ سے محبت اور عقیدت ہے۔ شیریں درانی نے کھا کہ متحدہ عرب امارات میں پی پی پی کا لیڈیز ونگ بنانے کی پات انھوں نے بے نظیر بھٹو سے کی تھی جس کو بے نظیر بھٹو نے تسلیم بھی کیا تھا۔ شیریں درانی کا کھنا ہے کہ بے نظیر بھٹو انتھائی وضعدار خاتون اور بارعب شخصیت کی حامل تھیں۔ وہ ہر وقت پاکستان میںجمھوریت کو پروان چڑھانے کی باتیں کیا کرتی تھیں اور پھر آخر دم تک اسی بات پر قائم رہیں۔ شیریں درانی کا کھنا ہے کہ بے نظیر بھٹو کو بھی اپنے کارکنوں سے عقیدت و محبت تھی وہ ھر کارکن کو اس کے نام سے جانتی تھیں اور ان کا حال اموال پوچتی تھیں۔ ان کی کمی شدت سے محسوس کی ہو رہی ہے وہ ایک ھمدرد اور باصلاحیت خاتون تھیں جن کی کمی عرصہ دراز تک محسوس کی جاتی رہے گی۔ ھماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین
پاکستان پیپلز پارٹی متحدہ عرب امارات کے پرانے کارکن سید سجاد حسین شاہ نے اپنے خیالات کا اظھار کرتے ہوئے کھا کہ بے نظیر بھٹو ایک انتھائی شفیق اور کارکنوں سے محبت اور اخلاق سے پیش آنے ولای خاتون تھیں۔ بے نظیر بھٹو سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ پاکستان کے بارے ہی بات کرتیں اور پاکستان کے مستقبل کے بارے متفکر رھتی تھیں۔ وہ مزھبی انتھا پسندی کے شدید خلاف تھین اور تعلیم عام کرنے کی حامی تھیں۔ وہ چاھتی تھیں کہ مسلمان پڑھ لکھ کر ترقی پسند مسلمان کھلائین اور انتھا پسندی سے گریز کریں۔ سید سجاد و حسین شاہ نے کھا کہ وہ تعلیم کے حصول پر زور دیتیں اور کھتیں کے تعلیم حاصل کر کے ہی انتھا پسندی اور باطل قوتوں کو شکست دی جاسکتی ہے وہ چاھتی تھیں کہ تمام سیاسی قوتیں ایک نظام کے تحت پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے کام کریں۔
پی پی پی کے راھنماء چودھری راشد علی بریار کا کھنا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے انتقال سے نہ صرف پی پی پی بلکہ پاکستان کی سیاسیت کو خاص نقصان پھنچا ہے۔ وہ عالمی سطح کی سیاسی لیڈر تھیں اور پاکستان کی پھچان تھیں۔ ان کی خدمات اور قابلیت کی تعریف غیر بھی کرتے تھے وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاسی خاتون تھیں جن کا ثانی ملنا ناممکن ہے۔ بے نظیر بھٹو کی کارکنوں میں موجودگی ہر وقت کارکنوں کو متحرک رکھتی تھی لیکن ان کے بعد سب خالی خالی لگتا ہے اور واقعی ایک خلا محسوس ہوتا ہے جو شاید کبھی پورا نہ ہو سکے۔ چودھری راشد علی بریار نے بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے ان کی متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ان ملاقاتوں کے دوران مقامی و علاقائی مسائل پر بات چیت ہوئی ہے۔ وہ وطن سے دور رہ کر وطن کی ہی بات کرتی تھیں اور اھل وطن کی بھتری اور بھلائی کیلئے بات کیا کرتی تھیں۔ یقیناً بے نظیر بھٹو کا ھم سے بچھڑ جاتا تکلیف دہ ام ہے جو ساری عمر تازہ رہے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن و راھنماء چودھری محمد شکیل نے کھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی مثال آپ تھیں۔ سیاسی میدان میں سب ہی ان کے معترف تھے۔ علمی قابلیت اس قدر کے وہ باھر کے ملکوں میں جا کر یونیورسٹیوں میں خصوصی لیکچر دیا کرتی تھیں۔ اھل مغرب بھی ان کی سیاسی بصیرت کے معترف تھے۔ انھوں نے اندرون اور بیرون وطن رہ کر جس طرح پاکستان میںجمھوریت لانے اور آمریت کو ختم کرنے کے لئے جس قدر کام کیا وہ لائق صد تحسین و آفرین ہے۔ پاکستان میں جمھوریت لانے کی جدوجھد میں اُنھوں نے 27 دسمبر 2012 کو زندگی کی بازی ھار دی۔ بے نظیر بھٹو جمھوریت ہیں جنھوں نے جمھوریت کو پروان چڑھانے کی خاطر آمریت سے ٹکر لی۔ بے نظیر بھٹو ایک عوامی لیڈر تھیں اور عوام میں بے حد مقبول تھیں۔ چودھری محمد شکیل نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو سے جب بھی ملاقات ہوئی اُنھوں نے استحکام پاکستان اور پاکستان کی ترقی کے لئے کام کرنے کی تلقین کی۔ وہ کھا کرتی تھیں کہ اُنھیں پاکستان کے غریب عوام کا بے حد خیال ہے وہ پاکستان اور پاکستان کے غریب عوام کی حالت بدلنا چاھتی تھیں۔ اُن کی شھادت سے دنیا ایک عالمی لیڈر سے محروم ہو گئی ہے اور ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔
Mian Munir Hans
پی پی پی متحدہ عرب امارات کے راھنماء میاں منیر ھانس نے کاھ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شھادت کا صلہ ہے ملک آمریت کے دور سے نکل کر جمھوریت کے راستے پر گامزن ہوا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی قربانی رنگ لائی ہے اور آمریت کے بعد اب پاکستان میں جمھوریت کا دور دورہ ہے۔ پاکستان میں استحکام جمھوریت کے لئے بھٹو خاندان نے جتنی قربانیاں دی ہیں اتنی کسی اور نے نھیں دیں۔ بے نظیر بھٹو کی شھادت نے اُنھیں ھمیشہ کے لئے امر کر دیا ہے اور وہ لوگوں کے دلوں میں ھمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن گلف ریجن کے صدر چودھری نور الحسن تنویر نے کھا کہ بے نظیر بھٹو واقعی ایک زیرک سیاستدان تھیں۔ ان کی شھادت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ مدتوں پورا نھیں ہو سکے گا۔ بے نظیر بھٹو اب واقعی منجھی ہوئی سیاستدان تھیں جس کا ثبوت اُنھوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی “میثاق جمھوریت” پر سائب کر کے دیا۔ چودھری نور الحسن تنویر نے کھا کہ قائد مسلم لیگ ن جناب محمد نواز شریف کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی کئی طویل ملاقاتوں کے بعد جو معاھدہ سائن ہوا وہ تاریخی اھمیت کا حامل ہے۔ اگر بے نظیر بھٹو زندہ رھتیں تو آج اُس معاھدہ کے تحت پاکستان کی حالت ہی کچھ اور ہوتی۔ وہ معاھدہ استحکام پاکستان اور پاکستان کی ترقی کی کوئی اھمیت نہ جانی گئی جس سے پاکستان میں ترقی کا عمل رک گیا بلکہ پاکستان ان پانچ سالوں میں نزلیوں کا شکار ہوا ہے۔ چوھدری نور الھسن تنویر نے کھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بچھڑ جانے کا دکھ ھمیں بھی ہے لیکن اس سے زیادہ دکھ اور غم اس بات کا ہے کہ ان کے سائن کردہ معاھدے پر عمل در آمد نھیں ہو رھا جہ لمحہ فکریہ ہے۔