دور دور تک کوئی جب نظر نہیں آتا
Posted on April 23, 2012 By Adeel Webmaster اقبال نوید
alone boat in water
دور دور تک کوئی جب نظر نہیں آتا
آنکھ کا پرندہ بھی لوٹ کر نہیں آتا
موت بھی کنارہ ہے وقت کے سمندر کا
اور یہ کنارہ کیوں عمر بھر نہیں آتا
خواہشیں کٹہرے میں چیختی ہی رہتی ہیں
فیصلہ سنانے کو دل مگر نہیں آتا
دور بھی نہیں ہوتا میری دسترس سے وہ
بازوئوں میں بھی لیکن ٹوٹ کر نہیں آتا
اپنے آپ سے مجھ کو فاصلے پہ رہنے دے
روشنی کی شدت میں کچھ نظر نہیں آتا
میں کبھی نوید اس کو مانتا نہیں سورج
بادلوں کے زینے سے جو اتر نہیں آتا
اقبال نوید