لال مسجد اسلام آباد میں قُرآن مجید کی حافظہ بچیوں، دینی تعلیم حاصل کرتے بچوں کو ذہریلی گیسوں سے بھسم کر ڈالنے والی حکومت غلیظ آمر جرنیل مشرف کی سربراہی میں چلنے والی ق لیگی حکومت کے وزیر اور ممبرانِ اسمبلی اب تک تو چوہے کی طرح بِلوں میں گھُسے ہوئے تھے اور اب موقع دیکھ کر “انصاف “کے علمبردار بن رہے ہیں “شرم اِن کو مگر نہیں آتی” خرِ عیسیٰ گر بہ مکہ روَد۔چوں باز آئید ہنوز خر با شد(عیسیٰ علیہ السلام کا گدھا خواہ مکہ چلا جائے جب واپس آئے گا تو گدھا ہی رہے گا)پاکِستانی عوام کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ اِن “انصاف پسند ” غنڈوں کی فوج ظفر موج جس نے مشرف کو ١٠٠ بار وردی میں منتخب کروانے کے اعلانِ “با ضمیر ” کیئے تھے کو بھول جائیں یہ جہاں بھی چلے جائیں غریب عوام لُٹے ہوئے بپھرے زخمی چیتوں کی طرح اِنکا پیچھا کریں گے اور بذریعہ اِلیکشن ہی اِنہیں بھَسم کر ڈالیں گے اِنہوں نے تو لال مسجد کے اندرجلی ہوئی دینی کُتب کو غلیظ جمعداروں کے پھاوڑوں سے اکٹھا کر کے ٹرکوں سے گندگی کے ڈھیروں پر پھنکوا دیا تھااور حافظ بچوں اور بچیوں کے بھسم شدہ اجسام ، ہڈیوں اور پھٹے ہوئے قُرآنی سپاروں کو گٹروں میں بہا ڈالاتھا۔ اِن ہمیشہ مقتدررہنے والے غنڈوں کے بدبو دار اجسام کسی بھی پارٹی میں شامِل ہو کر اُسے پلید اور بدبو دار تو بنا سکتے ہیںمگر فلاح و بہبود کرنا اِن کی قسمت میں ہی نہ ہے ان پر خدائے عزوجل کا قہر نازل ہونا ہی ہے جہاں جائیں گے اپنے ساتھ اُن کو بھی تباہ و برباد کر ڈالیں گے کہ گیہوں کے ساتھ گھُن بھی پِس جاتا ہے ان کے اندر گھسنے اور”انصاف” کے نعرے بلند کرنے سے اب تحریکِ انصاف کے کارکن خود شرماتے ہیں کہ اب ڈاکو لٹیرے اور غنڈے انصاف کے علمبردار بن کر کارکنوں پر سوار ہو گئے ہیںکیا لغار ی ،ترین، قصوری اور قریشی جیسے جاگیردار وڈیرے، اب غریب عوام کی خوشحالی کے علمبردار بن سکتے ہیں؟ توبہ بھلی کیوں غریب عوام کو بیوقوف بناتے ہو؟یہ اقتدار تک پہنچنے کی طوائف الملوکی ایسی کہ بڑے بڑے پارسا بھی شرماتے ،لجاتے اور گنہگار ہو جاتے ہیںیوں تو مشرف کی دیر رات تک سجنے والی صدارتی محل کی محفِل ایک اعلیٰ ترین بیرونی نائٹ کلب سے کسی طور بھی کم نہیں ہوتی تھی جہاں پر سازوخُمار کی سبھی لوازمات بدرجہء اُتم موجود ہوتی تھیںاسکے اندر جانے اور وہاںرت جگے کرنے والے کیسے ُملاں اور پارسا رہ سکتے ہیں۔مشرف جیسے سازِندے کے یار اُسکی محفلوں کو سجانے والے کیسے پاک صاف ہو کر سامنے آ گئے ہیں؟ او رقصوری تو انصاف کا جھنڈا لیکر پھر مشرف کی گود میں جا بیٹھا ہے آئندہ مقتدر ہو جانے کے لئے کیا کیا حربے استعمال کر رہے ہیں۔آدمی اپنی محفل سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ دوسری طرف “اللہ اکبر تحریک” کے دستور میں ہی درج ہے کہ جو شخص قائدِاعظم سے لیکرآج تک مقتدر رہا وہ اِس تحریک میں شامل نہیں ہو سکتااور عالمِ اسلام سے بغیر سُود قرضِ حسنہ حاصل کر کے سامراجی ممالک کے تمام قرضے اُتار کر بقیہ رقوم عوام کی فلاح و بہبودپر خرچ ہو نگی اور تمام کھانے پینے کی اشیاء 1/5 قیمت پر اور ہمہ قسم ٹرانسپورٹ کیلئے تیل بشمول مٹی کا تیل اور سی این جی 1/3 قیمت پر سبسڈی دیکر مہیا ہونگی تمام مزدوروں اورہمہ قسم ملازمین کو ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر ماہانہ معاوضہ ملے گا پنشن بھی تنخواہ کے برابر ہو گی تمام بے روزگاروں کو جب تک روزگار نہیں مِل جاتا پڑھے لکھوں کو٣ لاکھ روپے سالانہ اور ان پڑھ بے روزگاروں کو ٢ لاکھ روپے سالانہ ٣ سال تک بطور غیر سودی قرضہ ملتے رہیں گے۔اقتدار میں آتے ہی اللہ اکبر تحریک گیس،بجلی،صاف پانی،اعلیٰ سیوریج سسٹم،ٹیلی فون ،موبائل فون،ٹی وی نیٹ ورکس تک رسائی،ہمہ قسم علاج،ہر سطح کی تعلیم با لکل مفت مہیا کرے گی تا کہ پاکستان میں خوشحالی آئے ۔ایک ہزار دِنوں کے اندر ہی”ٹاسک فورس”کے زریعے تمام قیمتی دھاتیں سونا، چاندی،تانبا،کوئلہ و تیل نکال کر بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کر کے عالمِ اسلام سے ٢ سال تک لیئے گئے قرضِ حسنہ واپس کیئے جائیں گے اور پھر عالمِ اسلام سے اتحاد کے ذریعے مشترکہ دفاع،مشترکہ کرنسی،مشترکہ بینکنگ اورمشترکہ کاروبار سے مسلمانوں کودُنیا بھر میں ترقی پذیر اقوام کی صف میںکھڑا کیا جائے گا۔جدید ترین جنگی اصول کے تحت دشمن کے دشمن کو دوست بنائو اور فتح پائو اس فارمولے کے تحت پاکستان نے طالبان سے مذاکرات شروع کر دیئے ہیںتا کہ مل جل کر امریکہ کو یہاں سے بھگایا جا سکے اور باالآخر اسکا پیچھا کرتے ہوئے پورے عالمِ اسلام سے اِسے دفع دور کیا جا سکے تا کہ یہ سامراجی بھیڑیا کسی اور دیگر اسلامی ملک کو نہ چیر پھاڑ سکے۔پنجابی محاورہ کے مطابق “اَگ لین آئی تے گھر دی مالکَن بن بیٹھی” کے مصداق امریکہ کو ہمارے بُزدل جرنیل(خُدا کی ہزار لعنتیں اس پر ہوں) نے شمسی ایر بیس القائدہ سے لڑنے کے لیئے دی تھی لیکن اس نے ہماری چوکیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیاہمارے ہی غریب معصوم لوگوں کو ڈرون حملوں سے قتل کرنا شروع کر دیا”سپنی کو دودھ پِلایا اُس نے بالآخر ڈنگ مارا”۔اب ڈھول پیٹا جا رہا ہے کہ٩ برس بعد شمسی ایر بیس سے امریکی پرچم اُتار لیا گیا ہے لیکن کوئی اس پر زبان نہیں کھولتا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ارضِ مقدس پرایک مملکت” ریاست ہاے متحدہ امریکہ” ٩ برس تک کیونکر قائم رہی کس نے اسکی اجازت دی،کس نے کتنا مال بنایاکہاں جمع کروایایا ڈانس اور زنا خوری میں ضائع فرمایاکس پلیٹ فارم سے اسکی منظوری ہوئی۔وہ تحریر کہاں لکھی کہاں محفوظ کی گئی کون کون سامراج کا گماشتہ بنا میر صادق و میر جعفر کا کردارکیسے اور کیونکر ادا ہوا۔بلوچستان میں جو آج خطرناک ترین صورتحال ہے وہ کس نے پیدا کی اکبر بگٹی کو کس نے قتل کیااور کرایا۔پاکستانی میڈیا اس پر روشنی ڈالنے سے کیونکر معذور ہے؟کس نے طنابیں کھینچ رکھی ہیں پاکستان میں”انقلاب کا سونامی”لانے والے اقتدار”دان” فرمانے والے “سامراجی دیوی” کا طواف اور اُنکے چرنوں کو بوسہ دے آئے ہیں؟اور یہ لوگ مزید ٹیکس لگا کر عوام کا مہنگائی کے ہمالہ کے نیچے کچومر نکالنے پر تُلے بیٹھے ہیں عمران خان صاحب! کنونشن لیگ کے خالِق ایوب خان، ملک توڑنے والے یحییٰ خان کے ادوار کو بھی یاد رکھو،بُھٹو کو گھیرنے والے فراڈی غریب مزارعین جاگیر دار جنہوں نے اسے پھانسی کے پھندے تک پہنچایا (حالانکہ میں نے خود بھٹو صاحب کو کہا تھا کہ وڈیرے لاکھ قسمیں کھائیںچاہے گرم توے پر ننگے ہو کر پیٹھ رکھ کر بیٹھ جائیں اِنکا کبھی اعتبار نہ کرنا )اور ضیاء الحقی مجلسِِ شوریٰ اور مشرفی ق لیگی حواریوں کو بھی ذہن میں رکھوکہ”یہ فصلی بٹیرے ،نہ تیرے نہ میرے۔ جہاں پائیں دانہ،وہاں ڈالیں ڈیرے”کیا عمران خان اب اِن وڈیروں کو حق کا کلمہ پڑھوائیں گے؟ یہودی پروٹوکول میں واضح لکھا ہے کہ ہم دنیا بھر کے پریس پر کنٹرول رکھتے ہیںاور ہماری مرضی پر ہی اُتار چڑھائو ہوتا رہتا ہے۔تو مخصوص لیڈروں کی نمائش اور پبلسٹی بھی انھی کے دروں پر سجدہ ریز لوگوں کی ہی ہو سکتی ہے۔اسلیئے کوئی خوش فہمی میں نہ رہے کہ اب جاگیر دار ابنِ جاگیر دار، ابنِ انگریزی سامراج ذہنی غُلامیت کے شکار لوگ مُلک کو اسلامی فلاحی مُملکت بنائیں گے۔کبھی نہیں!کبھی نہیں! انکو اپنی اسمبلی کی سیٹیں چاہیئں جو پارٹی غریب کارکنوں کی محنت سے پاپولر ہوتی دکھائی دیتی ہے اسی میں رُوسیاہ لیکر گُھس جاتے ہیں۔غلیظ مشرف کے چرنوںاور دیگر آمروں کی گود میں پلنے والے اقتدار پسند اور انگریزوں کو باپو کہنے والے بھی محبِ وطن ہو جائیں گے یہ تصور کرنا بھی محال ہے۔خدا رحم کرے ہمارے دیس پر!اور کرے اللہ اکبر تحریک کو ُمقتدر!۔ ڈاکٹر میاںاحسان باری