آسمان پر ستاروں کی قندیلیں روشن تھیں اور ایک کنارے پر ہلکے پیلے رنگ کا چاند چسپاں تھا۔ کسی دور افتادہ جھونپڑے سے کسی نوجوان کے مسرت انگیز گانے کی ہلکی سے آواز آ رہی تھی۔ سارا شہر تاریکی اور نیند کی آغوش میں لپٹا ہوا تھا مگر اس کی آنکھوں میں نیند نہ تھی، وہ جاگ رہی تھی۔ یک لخت بارش شروع ہو گئی اور فضائوں میں بوندیں گرنے کا ترنم پھیل گیا جیسے آسمان سے بھیگی ہوئی موسیقی برس رہی ہو۔ وہ اپنے کمرے میں آئی ، گھڑی کی ٹک ٹک کیساتھ رات کی پچھلی ساعتیں گزر رہی تھیں۔
وہموں، اندیشوں اور خوفوں کی یلغار نے اسے بے بس کر دیا تھا۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس گہرے سانس میں اداسی کی اذیت تھی اور مجبوری کا کرب۔ آج اسکے شوہر کی پہلی برسی تھی جو گزر گئی۔ مہمان آئے اس سے اظہارِ ہمدردی کیا اور اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ وہ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ زندگی کا بوجھ تو اسے اب اکیلے ہی سہارنا ہو گا۔
car blast terrorist attack
اف یہ لمحہ جب امجد دہشت گردی کا شکار ہوا۔ امجد کے دفتر کی عمارت میں کار پارک کی گئی تھی۔ جس میں ٹائم بم رکھے گئے تھے۔ عمارت تباہ ہو گئی، چار آدمیوں کے پرخچے اڑ گئے۔ دس شدید زخمی ہوئے۔ امجد زخمیوں میں سے تھا جس نے زخموں کی تاب نہ لا کر سانحے کے چند گھنٹے بعد ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ دوسرے دن کے اخبارات حسب معمول اس قسم کی سرخیوں سے مطبع تھے۔ شہر میں دہشتگردی کا ایک اور واقعہ چار ہلاک، دس زخمی مجرموں کو بہت جلد گرفتار کر لیا جائے گا سرکاری وعدوں کا ”بہت جلد” بہت طویل ہوتا ہے، کوئی سالوں پر محیط اور بسا اوقات تو یہ ” بہت جلد” کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔ مقتول کی ہڈیاں تک گل جاتی ہیں اور قاتل گرفتار نہیں ہوتا۔ اف یہ طویل، دلخراش اور صبر آزما سال جو اس نے امجد کی جدائی میں گزارا اور اب تو یہ جدائی بھی دائمی ہو گئی۔ امجد کیساتھ گزری ہر یاد ایک فریاد بن کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ ماضی کی یاد میں اداسی کی رمق تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بڑی بڑی یاد امجد کی موت کے بعد بیتا ہوا یہ ہولناک سال، جب وقت کی گرم ریت کے اوپر وہ چلتی رہی، آسمان کی کالی تقدیر کے نیچے وہ بھٹکتی رہی۔ اس کے خوبصورت ارادے اور مستقبل کے خواب خوشبو کی طرح فضا میں بکھر گئے۔ زندگی کی ویرانی بڑھنے لگی۔ اداسی کے گراف میں اضافہ ہو گیا۔ غم اپنی شکلیں بدل کر عمر بھر انسان پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ بیچ بیچ میں خوشی کے مختصر وقفے بھی آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں مگر خواب کی طرح۔ شوہر کے مرنے کے بعد زندگی اس کے لیے طویل بوریت اور بے کنار درد بن کر رہ گئی تھی۔ اس کی حالت اس مکان کی سی تھی جس کا مکین مر چکا ہو۔
دہشتگردی کے عفریت نے آج ساری دنیا کو بوجھل، گھناؤنا اور غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ دہشتگردی اکیسویں صدی کا ایک عجیب و غریب اور خوفناک تحفہ۔ اس کا معصوم ذہن دہشتگردی کے اسباب و عوامل کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس کے چہرے پر سوچ کی پریشان متحرک لہریں پیدا ہونے لگیں۔ دہشتگردی کے کرتا دھرتا اپنے ناپاک منصوبوں پر بے پناہ جانی و مالی وسائل لٹا رہے ہیں۔ دوسری طرف دہشتگردی سے بچاؤ کیلئے ساری دنیا کی حکومتیں دفاعی تدابیر پر اربوں ڈالر صرف کر رہی ہیں مگر دہشتگردی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ دونوں طرف گھاٹے کا سودا ہے۔
دولت کا ضیاع، وسائل کا ضیاع، جانوں کا ضیاع۔ ارباب اختیار دہشتگردوں سے انکے مطالبات کے بارے سوال کیوں نہیں کرتے؟ کہ تم آخر چاہتے کیا ہو؟ کیوں مارنے مرنے پر تلے ہوئے ہو؟ کیا ساری دنیا کو بھسم کر دو گے؟ جہاز اغوا ہوتا ہے تو اغوا کنندگان سے بھی ڈیلنگ کی جاتی ہے۔ انکے مطالبات مانے جاتے ہیں یا کم از کم سنے جاتے ہیں۔ پھر دہشتگردوں کو دیوار کیساتھ کیوں لگایا جا رہا ہے؟ محض طاقت کا استعمال دہشتگردوں کیساتھ جھگڑے کو حل کرنے کا طریقہ نہیں۔ دہشتگردی آج چند سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے ذہن کے معصوم گوشوں میں سوچوں کے چراغ جھلملاتے رہے۔
sorrow weeping girl
دن مہینوں میں تبدیل ہوتے گئے اور مہینے سالوں میِں۔ وہ اپنے دل سے امجد کا خیال جدا نہ کر سکی۔ اس نے لخت لخت کو جمع کرنے کی کوشش کی مگر لاحاصل۔ خلوت میں جلوت میں، اول شب آخر شب، دن کے ہنگامے میں رات کے سناٹے میں، ہر لمحہ ہر لحظہ وہ تھی اور امجد کا تصور۔ خاندان میں کتنی ہی پرمسرت تقریبات وقوع پذیر ہوئیں مگر جب دل کی یہ کیفیت ہو تو بھلا خزاں اور بہار میں خط امتیاز کیوں کر کھنچا جائے۔ اس کے من کے کیف زدہ احساسات خوشی کا دامن نہ تھام سکے۔ دائیں آنکھ کے ایک کونے میں ٹھہرا تنہا آنسو اب تک ایک ننھے موتی کی طرح چمک رہا تھا۔ خاموشی نے رونے کو دبایا ہوا تھا اس لیے وہ بولی نہیں ورنہ آنسو نکل پڑتے۔ اس نے گلوگیر لہجے میں خود سے کہا:
بدی بھی ارتقائی منازل طے کر رہی ہے۔ پہلے لوگ آوارہ گردی کرتے تھے، پھر غنڈہ گردی کرنے لگے اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔دہشتگردی۔ میرا سہاگ مجھے کون واپس دیگا؟ میں اپنا مقدمہ کس کے پاس لے کر جائوں؟ کون ہے اس کا ذمہ دار، وہ جو حکومت کے تخت پر بیٹھے ہیں اور قانون کی باگ دوڑ سنبھالے ہیں؟ یا وہ جو پردا اخفا میں ہیں مگر دنیا کے سارے ملکوں پر انکی دہشت کا راج چل رہا ہے؟ یا پھر میرے محبوب سہاگ کا قاتل وہ ظالم سماج ہے جو اخلاقی اقدار سے ماورا ہے اور جہاں انسانی حس اتنی معدوم ہو چکی ہے کہ کسی بیوہ کے دکھ کو محسوس بھی نہیں کر سکتی؟ اس کی آواز ٹوٹ رہی تھی اور اس میں کھوکھلا پن محسوس ہو رہا تھا۔ اس کا دل رو رہا تھا مگر آنکھیں بے آب وگریہ تھیں۔ اس کا چہرہ کیلے کے نوخیز پتے کی طرح زرد تھا۔ آخر صبر کے سارے بند ٹوٹ گئے۔ اتنی زور سے روئی کہ اسے خود سے خوف آنے لگا۔ رونے کے بعد حسن اور نکھار، معصومیت اور بے بسی پیدا ہو جاتی ہے۔ بھیگی بھیگی گلابی آنکھیں اور دلکش ہو گئیں۔ اور پھر کامران اعلیٰ تعلیم کے بعد امریکہ سے پاکستان واپس آیا۔ کامران اسکا خالہ زاد بھائی، امجد سے اسکی شادی سے قبل جس کا رشتہ اسکے لیے آیا تھا مگر اس کے باپ نے انکار کر دیا تھا۔ وہ اور کامران بچپن اور جوانی کی دہلیز پر ایک ساتھ پلے بڑھے تھے۔
girl listing
جواں صورت، مہذب اور تعلیم یافہ کامران کو دیکھ کر پہلی مرتبہ اسکے دل میں ہلچل پیدا ہوئی لیکن جلد ہی خوش فہمی کے آبگینے چکنا چور ہو گئے۔ وہ چپکے سے اسکی گفتگو سن رہی تھی۔ کامران اس کی امی سے کہہ رہا تھا” خالہ جان! صرف پندرہ یوم کیلئے ایک ضروری کام سے پاکستان آیا تھا۔ مجھے اب جلد ہی واپس امریکہ جانا ہو گا کیونکہ میری بیوی امید سے ہے۔ اگلے ماہ خوشخبری متوقع ہے” وہ غم کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستی گئی۔ کتنی مجبور اور بے بس تھی وہ ۔ دہشتگر محض چند افراد ہی کو موت کی نیند نہیں سلاتے بلکہ انکے پیچھے خاندانوں کو اپاہج کر جاتے ہیں۔ نہیں یہ شاید پاپ تھا، دوسرے شادی کا خیال بھی نہ کرنا چاہیے۔ میں تمام عمر امجد کی یاد کے سہارے گزار دوں گی۔ اس نے ایک ملائم، دل گداز اور بھرپور چیخ ماری جو اس بات کا اعلان تھی کہ اب اس کا غم غصے میں تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ مجبور اور بے بس عورت کا غصہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو شاید دہشتگردی سے زیادہ دہشت ناک ہوتا ہے۔