یوں تو وطن عزیز کے تقریباً تمام ہی بڑے شہر دہشت گردی کی خونچکاں وارداتوں کے باعث لہو لہان ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ کسی نہ کسی شہر میں بہیمانہ واردات بے گناہ زندگیوں کے اتلاف کا سبب نہ بنتی ہو گزشتہ روز صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وقفے وقفے کے بعد چار شدید دھماکوں میں سو سے زیادہ قیمتی زندگیوں کا زیاں ہوا ۔یہاں 86 نعشوںکے ساتھ دھرنے میں بیٹھے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے علاوہ ہزاروں ہمدرد لوگوں کا یہ مطالبہ تھا کہ کوئٹہ فوج کے حوالے کیا جائے۔
بلوچستان میں حکومت کی انتہائی ناقص کاردکردگی کے بعدآئین کے آر ٹیکل 234 کے تحت گورنرراج قائم کر دیا گیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا گورنر راج بلوچستان کے مصائب اور مشکلات کا مداوا کر سکے گا؟ کیونکہ گورنر ذوالفقار مگسی نے اسی سانحہ پر کہا تھا کہ ً بد امنی اور دھماکوں کے بعد ہم حکمرانی کا حق کھو چکے ہیں۔ ً اسی روز سوات کے علاقے مینگورہ میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں بھی دھماکہ ہوا جس میں 25 شرکا شہید ہو گئے۔ یہ اصلاحی وعظ کا اجتماع تھا۔
تبلیغی جماعت کے اجتماع میں ہونے والے اس دہشت گردی کی واردات سے ایک الجھن پیدا ہوئی ہے کہ تبلیغی جماعت کا تعلق دیو بندی مسلک سے ہے اور پھریہ جماعت کسی سیاسی بکھیڑے میں بھی ملوث نہیں ہے۔دوسری جانب طالبان اور القائدہ پاکستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی میں ملوث قرار دیئے جاتے ہیں اور اس بات پر اصرار کیا جاتا ہے کہ ان تنظیموں کا تعلق بھی دیو بندی مسلک سے ہی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ان لوگو ں نے اپنے ہی مسلک کے ایک ایسے اجتماع پر کیوں حملہ کیا جو درس قران کی محفل تھی۔
جہاں ذکر الہی ہو رہا تھا۔ اس واردات سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ وطن عزیز میں ہونے والی دہشت گردی میں بیرونی ایجنسیوں کا بہیمانہ کر دار بھی وطن عزیز میں انارکی اور شورش کا سبب بن رہا ہے۔
Balochistan
جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی کوئٹہ اور سوات کے بم دھماکوں اور کراچی میں روز افزوں دہشت گردی کی لہر پر موجودہ حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ًایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔اتنی بڑی وارداتیں بیرونی مدد کے بغیر ممکن نہیں ، تمام شبعہ زندگی سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ فکر حلقے ملک میں بڑھتی ہوئی اس بھیانک دہشت گردی سے انتہائی ملول و غمزدہ ہیں۔کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا ایک تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔جس کے نتیجے میں جہاں بے گناہ اور قیمتی زندگیوں کا ضیاع ہو رہا ہے وہیں اسکے باعث سیاسی ،معاشی اور سماجی زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔دشت گردی کے سبب بیرونی سرمایہ کاری کے ذرائع بھی مسدود ہو گئے ہیں۔
گذشتہ سال کے اوائل میں صدر آصف علی زرداری نے کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پیپلز پارٹی ،متحدہ اور اے این پی پرمشتمل کمیٹی قائم کی تھی جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ کراچی میں امن کے قیام کے لئے سفارشات پیش کریں لیکن یہ کمیٹی بھی بد امنی کے خاتمے کئے لئے تفویض کردہ ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکی ۔صدر زرداری کی دی گئی ہدایت کو تقریباً ایک سال ہو گیا ہے۔دہشت گردی کی گمبھیر تا میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن اس عفریت کے خاتمے کا حل کسی کے پاس نہیں ہے۔دراصل وہ سیاسی جماعتیں جو اس مظلوم شہر کی حکمران ہیں اور جن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبہ کے عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم کریں ۔ لیکن افسوس ہے کہ وہ اپنی سیاسی آویزش کے باعث باہمی اعتماد و خلوص سے محروم ہیں۔اگر وہ مخاصمت کے دائرے سے باہر آجائیں اور ان میں فکر و عمل کی یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہو جائے تو ہمیں یقین کے ان کا اتحاد صرف کراچی ہی نہیں پورے صوبہ سندھ میں امن و آشتی اور عافیت کا سبب بن سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتہ وزیر اعظم نے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان کے صنعتی منصوبوں میں سرمایا کاری کریں اور انہوں نے سرمایہ کاروں کو حکومتی تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے لیکن ایسی صورت میں جبکہ ملکی سرمایہ کار موجودہ صورتحال سے تنگ آکر بڑی تیزی اپنے سرمائے کو بیرون ملک منتقل کر رہا ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی اس مخدوش حالت میں یہاں سر مایہ کاری پر آمادہ ہو جائے گا۔
Investors In Pakistan
اس لئے یہ ضروری ہے کہ حکومت ملک میں پھیلی ہوئی بد امنی اور پر آشوبی کی فضا کو معدوم کرے۔سب سے پہلے اپنے سرمایہ کار وں کو اعتماد میں لے۔اسکے بعد بیرون ملکی سرمایہ کار خود بخود پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے چلے آئیں گے۔