برطانوی میڈیا کے پیٹ میں اُس وقت شدت سے بل پڑنے لگے اور اِس کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئیں جب پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے اُمور کے انچارج حبیب اللہ خان نے ایک موقع پر کہاکہ پاکستان نے30لاکھ پناہ گزینوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کرلیاہے اِس لئے کہ افغان مہاجرین ہمارے لئے امن وامان ، تحفظ، معیشت اور ہماری مقامی ثقافت کے لئے خطرہ بن چکے ہیں اِس پر برطانوی میڈیا سب سے پہلے یوں چیخ پڑاجیسے پاکستان کے اِس فیصلے کا براہ راست اثر افغانیوں کے بجائے برطانیوں پر پڑے گا اور برطانوی میڈیانے پاکستان کے اِس فیصلے کو توڑمڑورکر اور اِس پر مرچ مسالہ لگاکردنیا کے سامنے کچھ اِس انداز سے پیش کرنا شروع کردیا کہ اِس سے پاکستان کا وقار دنیا کے سامنے مجروح ہو حالانکہ پاکستان کا اِس حوالے سے اپنا موقف سو فیصد درست ہے کیوں کہ آج اگر کوئی حق و سچ کا عینک لگاکر دیکھے تو اِس سے کوئی انکار نہیں کرسکتاہے۔
موجودہ حالات میں اِن حوالوں سے پاکستان کو کن مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہے مگر جب کوئی مصالحت پسندی کا شکار ہوکر اور اپنے مفادات اور مقاصد کے تحفظ کے لئے اِس کا انکار کرے تو پھر ہم اِسے اِس کے پاگل پن اور دیوانہ ہونے کی تصدیق کردیں گے اور سمجھ لیںگے کہ اِس میں حق و سچ کی تمیز ختم ہوگئی ہے اور یہ تصور کریں گے کے یہ وہ پاگل ہے جو ہمیں پاگل سمجھ کر اپنا کام نکلواناچاہ رہاہے مگر ایسے میں ہمیںبھی اپنے موقف پر ڈٹ کر اِس پاگل کے ہر وار کا مقابلہ کرناہوگا جیسے ا یک مینٹل برطانوی اخبار گارجین نے پاکستان سے 30لاکھ پناہ گزینوں کو بے دخل کئے جانے والے فیصلے پر واویلاکرتے ہوئے لکھاہے کہ” پاکستان رواں برس کے اختتام تک افغان باشندوں کے پناہ گزینی کی حیثیت(اسٹیٹس) کو منسوخ کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے اخبار کے مطابق دنیاکا سب سے بڑاافغان مہاجرین کا حامل ملک پاکستان آج اپنے یہاں 30لاکھ افغان پناہ گزینوں کوبے دخل کرنے جارہا ہے۔
Drugs and weapons
جبکہ اخبار نے پاکستان کی دگرگوں ہوتی معیشت اور یہاں( تین دہائیوں سے بھی زائدعرصے تک اِن تیس لاکھ پناہ گزینوںکی ہی وجہ سے) روزآفزوں ہوتی ہوئی دہشت گردی، تیزی سے پھلتا پھولتا منشیات کا استعمال اور اسلحہ کلچرل کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغان حکومت سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے لکھاہے کہ اگر پاکستان نے اپنے یہاں سے اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزین افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیج دیاتو یقینی طور پرافغانستان مزید بحران کا شکارہوجائے گا جو پہلے ہی عسکریت پسندی اورمنشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے تباہ حل ہے..حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اِن تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے آج پاکستان اپنی تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
جس کے بارے میں دنیاکو کوئی پرواہ نہیں ہے اور اِس کے بارے میں کسی برطانوی اخبار یا کسی ریورپی میڈیانے کبھی اپنی تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کچھ نہیں لکھا…کیوں کیا اتنی بڑ ی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کو اپنے یہاں پناہ دینے کی وجہ سے پاکستان مسائل کی کھائی میں نہیں گرا….ہاں عالمی برادری اور دنیاکو یہ بھی معلوم ہوناچاہئے تھاکہ جس وقت یہ پاکستان میں تیس لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دلوارہی تھی تویہ وہی پاکستان ہے جو اپنے قیام کے رو ز ہی سے مسائل میں گھراہواہے اورتب سے ہی یہ اپنے حقیقی شہریوں کو تواِن کے بنیادی حقوق دے نہیں پارہاہے۔
یہ اِن تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو کیسے اِن کے حقوق دے پائے گا…؟ مگراُن حالات میں یہ ایک مظلوم پاکستان ہی تھا کہ جو اُس وقت عالمی برادری کے دکھائے گئے سبز باغ میں آگیا اور یوں اِس کے اخلاقی و سیاسی دباؤ میں آکر 1978-79میں روس افغان جنگ کے مارے کھدیرے(بے کس ومجبور ماربھگائے) افغانیوں کو اپنے دامن میںچھپانے اور پناہ دینے میں مجبورہوگیا اور اِسی طرح آج ایک بار پھر افغانستان میں دنیاکی ایک اور سُپرطاقت امریکا(افغان دوست اور ہمدرد کی شکل میں) اپنے مذموم عزائم کو لئے نیٹوافواج کے ساتھ اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے اِس کے پیچھے بھی افغانیوں کی فلاح وبہبود سے زیادہ امریکا ، برطانیہ اور نیٹوافواج کے اپنے اپنے مقاصد اور مفادات کارفرماہیں اِ س میں بھی اِن طاقتوں نے پاکستان کو فرنٹ لائن کا کردار اداکرواکر اِس کی معیشت اور اِس کی سیاسی و اخلاقی اورمذہبی ورایات کو شیرازہ بکھیرکررکھ دیاہے مگراِس کے باوجود بھی پاکستان ہی کو مجبورکیاجارہاہے کہ یہ اِن کے مقاصدکا حصہ رہ کراِن کے عزائم کی تکمیل تک اِن کے ساتھ رہے اور اپنے یہاں رہنے والے تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو اُسی طرح تمام بنیادی سہولتیں مہیاکرے جس طرح یہ اپنے شہریوں کو فراہم کرتاہے۔
Pakistan
جبکہ اخبار کے مطابق پاکستان کے اِس فیصلے پر مغربی ممالک اِس پالیسی پر نظرثانی کے لئے پاکستان پر طرح طرح سے دباؤ ڈال رہے ہیں اور کھلم کھلا پاکستان سے کہہ رہے ہیں کہ اِس پالیسی سے پاکستان کے تعلقات اقوام متحدہ اور دیگرعالمی شراکت داروں سے بگڑ سکتے ہیں اخبار نے اپنے تئیں عالمی برادری اور افغان حکومت کی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھاہے کہ پاکستان سے تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے عمل سے نمٹنے کے لئے نہ تو بین الاقوامی برادری اور نہ ہی افغان حکومت نے اپنی اپنی کوئی حکمت عملی تیار کی ہے کہ وہ خوش اسلوبی سے پاکستان کے اِس فیصلے کو قبول کرلیں اوراِسی کو بنیاد بناکر برطانوی میڈیا نے خود سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے اِس کے اِس فیصلے کے خلاف منفی پروپیگنڈہ مہم بھی پوری زور و شورسے شروع کررکھی ہے اور یہ خود سے عالمی برداری کا دماغ بنارہاہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے پاکستان کو اِس منصوبے سے روکاجائے اور اِسے مجبورکیاجائے کہ وہ اگر ایساکرنے کا سوچ بھی رہاہے تو اِسے اپنے اِس عمل کے برعکس عالمی برادری اور میڈیا کی جانب سے بھی منفی اثرات کا سامنابھی کرناپڑسکتاہے۔
جبکہ اِس صورت حال میں اِدھریہ امرحوصلہ افزاء اور قابلِ ستائش ہے کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے اُمور کے انچارج حبیب اللہ خان نے صاف اور دوٹوک الفاظ میں عالمی برداری اور برطانوی میڈیاکے سامنے اپنا حقائق پر مبنی موقف بیان کردیا ہے کہ” اسلام آباداِس پالیسی پر نظرثانی کے لئے کوئی نرمی نہیں دکھائے گا اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہہ دیاہے کہ افغان مہاجرین ہمارے لئے امن وامان ، تحفظ، معیشت اور ہماری مقامی ثقافت کے لئے خطرہ بن چکے ہیں اور اِسی کے ساتھ ہی اُنہوں نے عالمی برادری کو مخاطب کرکے یہ بھی کہہ دیاہے کہ اگر بین الاقوامی برادری کو پاکستان میں تیس سال سے بھی زائدعرصے سے رہنے والے افغان پناہ گزینوں سے اتنی ہی ہمدردی اور اِن کے مسئلے پر کچھ زیادہ ہی تشویش ہے تو وہ اِن افغان مہاجرین کے لئے تُرنت اپنے ممالک کے دروازے کھول دے۔
مگر اَ ب ہم اِن کی بے شمار برائیوں کے بعد اِنہیں اپنے یہاں مزید پناہ دینے کے لئے کسی بھی صورت میں متحمل نہیں ہوسکتے ہیں اِن کا کہناہے کہ افغا ن پناہ گزین یورپ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیاجیسے ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ خوش رہناپسندکریں گے پاکستان نے تو تیس سال سے زیادہ عرصہ تک اِنہیں برداشت کیاہے اور اپنے دگرگوں حالات کے باوجود بھی اِن کی میزبانی کی ہے اور خود نہ کھاکر مگر اِن کو کھلایاہے اور اِسی کے ساتھ ساتھ راقم الحرف بھی عالمی برداری سے یہ ضرورکہناچاہے گا اگر واقعی یہ پاکستان میں مقیم 30لاکھ افغان پناہ گزینوں کی اتنی ہی ہمدردہے تو اِسے اپنے اِن جذبات کا اظہار اپنے یہاں افغان مہاجرین کو پناہ دے کر ضرور کرناچاہئے …تاکہ اِنہیںاپنے یہاں پناہ دینے کے بعد اِسے بھی احساس ہوکہ جن افغان پناہ گزینوں کی پاکستان نے تیس سال تک عالمی دباؤمیں رہ کرمیزبانی کی ہے اِسے کن مشکلات اور پریشانیوں کا سامنارہاہے اور کن حالات میں پاکستا ن جیسے دنیاکے ایک غریب و ترقی پزیر ملک نے اپنی ثقافت سے یکدم مختلف تیس لاکھ افغان مہاجروں کی تیس سال تک میزبانی کی ہے ۔
Afghan refugees camps
آج پاکستان نے تین ، ساڑھے تین دہائیوں بعد اپنے یہاں سے تیس لاکھ افغان مہاجرین کی واپسی کا جو فیصلہ کیا ہے یہ دیرآیددرست آید کے مصداق ہے پاکستان میں آج جتنی بھی دہشت گردی ہورہی ہے اِس کے تمام ڈانڈے پاکستان میں قائم افغان کیمپوں اور افغان بستیوں سے ہی ملتے ہیں اَب جبکہ پاکستان نے اِس بات کا تہیہ کرلیا ہے کہ اپنے یہاں سے تمام افغان مہاجرین کو نکالنا ہے تو اَب اِس پر چاہئے جتنا بھی عالمی دباؤ کیوں نہ آجائے پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنے اِس فیصلے پر ڈٹارہے اور اِس سے ذرابھی ٹس سے مس نہ ہواور اپنے اِس موقف پر قائم رہ کر عالمی بردادری کو مجبورکردے کے اگر افغان مہاجرین کے لئے اِسے اتنی ہی ہمدردی ہے تو یہ اِنہیں اپنے یہاں پناہ دے دے اور دیکھ لے کہ یہ اِن کے یہاں کچھ عرصہ رہ کر اِن کے ملک اور معاشرے اور اِن کی معیشت اور سیاست کا کیا حشر کرتے ہیں…؟ یہ پاکستان ہی کا دل گردہ تھاکہ اِس نے اپنے یہاں تین دیائیوں سے بھی زائد عرصہ تک 30لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دے کر اپنا سیاسی، معاشی ، اخلاقی اور ثقافتی لحاظ سے کتنانقصان کیاہے…؟
اِس حوالے سے یہاں ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ اِس کی ایک تازہ مثال گزشہ دنوں کراچی میں سُہراب گوٹھ میں بھتہ نے دینے پر دکانداروں پر بھتہ خوروں کی فائرنگ سے پانچ افراد کی ہلاکت اور کئی کے زخمی ہونے کا جو افسوس ناک واقعہ پیش آیاتھا اِس کے پسِ پردہ بھی ممکن ہے کہ اِس علاقے میں قائم افغان بستیوں کاوہ سرگرم بھتہ خور گروپ بھی ملوث ہوسکتاہے جو عیدالضحیٰ کے موقع پریہاں خریدوفروخت کے لئے کئی سالوں سے قائم ہونے والی جانور منڈی سے بھی بھتہ وصول کررہاہو اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ سُہراب گوٹھ میں قائم افغان بستیوں میں متحرک رہنے والے ہر جھوٹے بڑے بھتہ خور اور جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کیاجائے کیونکہ دوماہ بعد جب سُہراب گوٹھ میں قربانی کے جانوروں کی خریدوفروخت کے لئے مرکزی جانور منڈی لگائے جائے تو خریدار اور بیوپاری بلاکسی خوف وخطر آزادانہ طور پر اپنے اپنے معاملات طے کرسکیں ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ابھی سندھ انتظامیہ اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے سربراہان نے اِس جانب سردمہری اور سست روی کا مظاہر ہ کیاگیاتو عین ممکن ہے کہ عیدالضحی ٰ کے ایام میں سُہراب گوٹھ میں قربانی کے جانوروں کی خریدو فروخت کی منڈی کا قیام کوئی مسئلہ نہ بن جائے۔ تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم